ویب ڈیسک: یورپی پارلیمنٹ نے منی پور، ہندوستان میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا۔ یورپی پارلیمنٹ نے ایک فوری قرارداد منظور کی ہے جس میں حکومت ہند سے منی پور میں جاری افراتفری اور تشدد سے نمٹنے کا مطالبہ کیا گیا۔
فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں یورپی پارلیمنٹ نے ایک فوری قرارداد میں بھارت کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ منی پور میں پیدا ہونے والے قبائلی اور مذہبی بحران کے درمیان سکون بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ یہ قرارداد ایک پرتشدد تصادم کے جواب میں سامنے آئی ہے جو منی پور کے زیادہ تر ہندو میتی اور بڑی تعداد میں عیسائی کوکی قبائل کے درمیان جاری تنازعہ کی وجہ سے مئی میں شروع ہوا تھا۔ کم از کم 120 ہلاک ہو چکے ہیں، 50,000 بے گھر ہو چکے ہیں، اور 1,700 سے زیادہ گھر اور 250 گرجا گھر تباہ ہو چکے ہیں۔
یورپی پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت سے منظور کی گئی قرارداد میں ہندوستانی حکومت سے منی پور میں "تشدد کا ارتکاب کرنے والے ہجوم کو حاصل ہونے والے استثنیٰ سے نمٹنے اورحکومت کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے مطابق تشدد کو روکنے کے لئے موثر جواب دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے"۔ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار طویل عرصے سے ہندوستان میں انسانی حقوق کی سنگین حالت پر توجہ مبذول کروا رہے ہیں، (وہاں موجود سنگین مسائل میں )ایسے قوانین اور پالیسیاں بھی شامل ہیں جو اقلیتی مذہبی گروہوں کی آزادیوں کو سختی سے محدود کرتی ہیں، اس کے علاوہ بنیاد پرست ہجوم کے ذریعہ اقلیتوں کو نشانہ بنا کر ہراساں کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔
بنیاد پرست ہجوم کے ذریعہ مستقل خوف و ہراس پھیلایا گیا
برسیلز میں الائنس فار ڈیفینڈنگ فریڈم کے سینئیر لیڈر ایڈینا پورتارو نے یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد پر ردعمل میں کہا کہ "ADF انٹرنیشنل منی پور پر یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد کا خیرمقدم کرتا ہے اور EU کی تائید کرتا ہے تاکہ امن بحال کرنے اور بحران سے نکلنے کے راستے کے طور پر سول سوسائٹی اور متاثرہ کمیونٹیز کی شرکت کے ساتھ ایک جامع بات چیت کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جا سکے۔" برسلز میں قائم ADF انٹرنیشنل پوری دنیا میں مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے کوششوں میں سرگرم ہے۔
پورتارو نے مزید کہا کہ "مذہبی آزادی کا جاری بحران جو ہم پورے ہندوستان میں دیکھ رہے ہیں، منی پور میں پرتشدد تباہی اور افراتفری پھوٹ پڑی ہے۔ بھارت کے لیے نہ صرف منی پور کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کافی وقت گزر چکا ہے بلکہ اسے ایسے قوانین اور پالیسیوں کو بھی ختم کرنا چاہیے جو مذہب کی آزادی میں رکاوٹ ہیں۔ ہماری دعائیں ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔‘‘
"عیسائیوں کے خلاف حملےآئسولیشن میں ہونے والےواقعات نہیں ہیں
رکن یورپی پارلیمنٹ مریم لیکسمین نے قرارداد سے قبل بحث کے دوران کہا: "جبکہ ہندوستانی حکام اکثر یہ فخر کرنا پسند کرتے ہیں کہ یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت اور تشدد ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ عیسائیوں کے خلاف یہ حملےآئسولیٹڈ واقعات نہیں ہیں۔ یہ منظم حملے ہیں جن کے بعد وہ تباہی اور تباہ شدہ زندگیاں ہی باقی رہی ہیں۔ یورپی یونین ان جرائم پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔
کروشیا کے سیاستدان اور رکن پیورپی پارلیمنٹ لادسلاط الیچ نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے زور دیا: "ہمارا پیغام واضح ہونا چاہیے: ہم تشدد کی طرف سے ٓنکھیں بند نہیں کریں گے۔ اور ہم مظلوم مسیحیوں سے منہ نہیں موڑیں گے۔"
پس منظر: منی پور میں بڑے پیمانے پر تشدد اور ظلم و ستم
3 مئی سے 6 مئی تک، بڑے پیمانے پر تشدد، لوٹ مار اور آتش زنی کے نتیجے میں منی پور میں کم از کم 120 جانیں گئیں، 400 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے، اور دسیوں ہزار لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔ یہ تصادم منی پور کے زیادہ تر ہندو میتی اور زیادہ تر عیسائی کوکی قبائل کے درمیان جاری تنازعہ کا نتیجہ تھا، اس میں ان میتیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جو عیسائی ہیں۔
مذہبی علامتوں اور عبادت گاہوں کو بہت زیادہ نشانہ بنایا گیا، رپورٹس کے مطابق 250 سے زیادہ گرجا گھروں کو نذر آتش یا نقصان پہنچایا گیا۔ ریاستی حکومت منی پور میں پرتشدد صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ پہلے فسادات کے چند دن بعد ہی فوج کو مزید تشدد اور تباہی کو روکنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ زیادہ تر حصہ میں صرف امدادی تنظیمیں اور رضاکار ہی متاثرین کی مدد کر رہے ہیں، جہاں آج بھی تشدد جاری ہے۔
حکومت نے ان لوگوں کو معمولی معاوضے کی پیشکش کی ہے جن کے خاندان کے افراد تشدد سے مارے گئے ہیں، لیکن ان لوگوں کے لیے کوئی معاوضے کی پیشکش نہیں کی گئی جنہوں نے پرتشدد حملوں میں اپنے گھر، کاروبار کھو دیئے یا زخمی ہوئے ہیں۔
"بہت سے معاملات میں، ہجوم نے ایک چرچ یا مکان کو جلا دیا ہے جس کا تعلق میتی عیسائی س کمیونٹی سے ہے لیکن جو میتی عیسائی نہیں ہیں تو ان کو نقصان نہیں پہنچایا ہ گیا۔ عیسائیوں کو اس بنیاد پر میتیوں کی طرف سے دشمنی کا سامنا ہے کہ وہ عیسائی ہیں،"
منی پور میں فسادد زدہ مسیحیوں کی مدد کے لئے کام کرنےوالے انسانی حقوق کے ایک وکیل اور ADF انٹرنیشنل کے اتحادی نے جو منی پور میں متاثرہ افراد کی مدد کی پیشکش کے لیے زمین پر ہنگامی ہاٹ لائنیں قائم کر رہا ہے، کہا"لوگ شدید صدمے میں ہیں۔ اپنے کام کے ذریعے، ہم منی پور میں تشدد کو روکنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں، مذہبی اداروں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، عیسائیوں کو آزادی سے اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں اور زندہ بچ جانے والوں کے لیے معاوضے کی سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت میں مذہبی آزادی کا بحران
حالیہ برسوں میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ مقامی، ریاستی اور قومی سطح پر قوانین، بشمول تبدیلی مذہب مخالف قوانین، مذہبی اقلیتوں کے لیے امتیازی ہیں، اور بدامنی کے کلچر کو بنیادیں فراہم کرتے ہیں اور نا انصافی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ یہ قوانین واضح طور پر ہجوم اور چوکس گروہوں کو پرتشدد مہم چلانے کی ترغیب دیتے ہیں، جیسا کہ منی پور اور اتر پردیش کے براڈویل کرسچن ہسپتال میں دیکھا گیا ہے۔
غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ اور سیڈیشن ایکٹ جیسے قوانین مذہبی آزادی اور اظہار رائے کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ قوانین نگرانی، ہراساں کرنے، املاک کو مسمار کرنے اور حراست کے ذریعے مذہبی آزادی کی وکالت کرنے والی آوازوں کو دباتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت بہت سے وکلاء، صحافیوں اور مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کیا گیا، حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے حامی بھارت میں مذہبی آزادی کی سنگین اور سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہے ہیں۔