مال روڈ (جمال الدین جمالی) اسلامی نظریاتی کونسل نے دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی کی اجازت لینے کو غیرضروری قرار دیدیا، شوہر کیلئے ثالثی کونسل اورسول جج سے اجازت لینا بھی ضروری نہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے دوسری شادی کے معاملے پر رپورٹ سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی میں جمع کرادی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیک وقت چار بیویوں کو نکاح میں رکھنا جائز ہے، حکومت کو مسلم فیملی لاء میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
بعض خواتین نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ خاوند ایک بیوی کے حقوق پورے کرے تو پھر دوسری شادی کا سوچے، دوسری شادی آسان نہیں، خاوند پہلی بیوی کے حقوق تو پورے کریں۔
خواتین نے کہا کہ خاوند کو اپنے بچوں اور پہلی بیوی کے بارے میں سوچنا چاہیے، اگر ان کے حقوق پورے کرتا ہے تو پھر دوسری شادی کا سوچے، دوسری شادی سے پہلی بیوی اور بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے، بعض مردوں نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں نکاح اور طلاق سے متعلق قوانین کو مسلم فیملی لاء کہا جاتا ہے جو 1961 میں آرڈیننس کی شکل میں نافذ ہوا تھا، قوانین کے مطابق کسی بھی شخص کو دوسری شادی کرنے کے لیے اپنی پہلی بیوی سے اجازت لینا لازمی ہے، 2015 میں بننے والے فیملی لاء کے تحت کسی شخص کا پہلی بیوی سے رضامندی لیے بغیر دوسری شادی کرنا ایک قابل تعزیر جرم ہے، اس قانون کے تحت 2017 میں جوڈیشل مجسڑیٹ علی جواد نقوی نے لاہور کی ایک ذیلی عدالت میں ایک شخص کو پہلی بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی کرنے پر2 لاکھ روپے جرمانے اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔
پاکستانی قوانین میں یہ لازمی ہے کہ کوئی بھی شخص اگر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ تحریری طور پر اپنی موجودہ بیوی یا بیویوں کو مطلع کرے، پاکستانی قوانین کے مطابق خواتین کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 16 جبکہ مردوں کے لیے 18 سال ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ نکاح کے لیے کوئی عمرمقرر نہیں کی جاسکتی تاہم رخصتی کے لیے بلوغت کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔