ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

غزہ جنگ بندی معاہدہ؛ اسرائیل کی سیاست میں بھونچال کی ابتدا ہو گئی

 REMARKS ON GAZA hostage's DEAL, CITY42 National Security Minister Itamar Ben Gvir ,Gideon Sa’ar, New Hope party, Otzma Yehudit, National Security Ministry, Carmel Gat, Yair Lapid, Avi Dichter, Knesset, Hamas, October 7 attack, Gaza crisis, hostages deal
کیپشن: نووا قتل عام میں قتل ہونے والے اوز ایزرا موشے کی والدہ ریچل موشے، 13 جنوری 2025 کو نیسیٹ میں فنانس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ پر چیخ رہی ہیں۔ غزہ جنگ بندی ڈیل کی خبروں کے درمیان نیتن یاہو کی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی وزیر بن گویر نے اس معاہدہ کو  ہونے سے پہلے ناکام بنانے کے لئے ساتھی وزیر سموٹریچ سے پبلک کے سامنے ہی مدد مانگ لی جس کے نتیجہ میں اسرائیل میں تنقید کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  دوحہ میں غزہ جنگ بندی کی  خبریں  باہر نکلتے ہی اسرائیل کی سیاست میں ایک عرصہ سے اندر ہی اندر چل رہی یہ کنٹروورسی بھی اُبل کر پھٹ پڑی کہ نیتن یاہو حکومت خود یرغمالیوں کی واپسی کی ڈیل کرنے میں تاخیر کر رہی ہے؛ نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کے اہم وزیر نے اچانک بتایا کہ وہ بار بار یرغمالیوں کی ڈیل کو روک چکے ہیں اور اب انہوں نے ایک دوسرے اتحادی وزیر سے استدعا کی کہ وہ مجوزہ ڈیل کو روکنے میں ان کا ساتھ دیں۔

کنٹروورسی یہ ہے کہ  آیا نیتن یاہو حکومت خود یرغمالیوں کی واپسی کی ڈیل کو مؤخر کرتی آ رہی ہے یا نہیں، نیتن یاہو حکومت ہمیشہ حماس پر ڈیل تک پہنچنے میں رکاوٹ بننے کا الزام لگاتی ہے۔نیتن یاہو حکومت نے پبلک کو یہ تاثر دینے کے لئے حتیٰ کہ کلاسیفائیڈ سٹیٹ ڈاکیومنٹس بھی خود لیک کروائے کہ دراصل وہ تو ڈیل چاہتے ہیں لیکن حماس کا رویہ ڈیل میں رکاوٹ ہے۔

اسی جنگ بندی کو لے کر نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے اہم لیڈر اور سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے نیتن یاہو سے اختلاف اتنا بڑھایا تھا کہ نیتن یاہو نے انہین وزارت سے الگ کر دیا، بعد میں گیلنٹ نے پارلیمنٹ کی رکنیت بھی چھوڑ دی۔ گیلنٹ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی فوج میں جنگ کو غیر ضروری طول دیئے جانے پر بے چینی ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غالباً اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لئے نیتن یاہو جنگ بندی کی طرف نہیں جا رہے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے بعد گیلنٹ لیکود پارٹی میں نیتن یاہو کی متبادل قیادت فراہم کرنے پر  توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی اتحادی حکومت میں نسبتاً زیادہ مذہبی رجحانات رکھنے والے ووٹروں کی نمائندگی کرنے والی زیادہ دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے نمائندہ وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بین گویر نے منگل کو  خود بتا دیا کہ انہوں نے بار بار یرغمالیوں کی واپسی کے لئے ڈیل کو ناکام بنایا،  بن گویر نے زیادہ  شدید مذہبی رجحانات رکھنے والے ایک اور اتحادی وزیرسموٹریچ سے اس ڈیل  کو روکنے میں مدد کرنے کی تاکید کی جس کے ہو جانے کی خبریں پیر اور منگل کے روز صبح سے شام تک عالمی میڈیا کی ہیڈ لائنز بنی رہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل نے بتایا کہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اوتزما یہود کے رہنما  بن گویر نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران 'ہم اس معاہدے کو وقتاً فوقتاً آگے بڑھنے سے روکنے میں کامیاب رہے'۔ مذہبی صہیونیت پارٹی نے کہا کہ نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تیار ہے۔

قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے پیر کو اس وقت  شدید عوامی ردعمل کو جنم  دے دیا جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گزشتہ سال کے دوران حماس کے ساتھ یرغمالی جنگ بندی کے معاہدے کو بار بار ناکام بنایا، جبکہ وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ سے مطالبہ کیا کہ وہ ابھرتے ہوئے معاہدے کو ناکام بنانے میں دوبارہ ان کے ساتھ شامل ہوں۔

بین گویر کے ان بلنٹ کومنٹس نے متعدد یرغمالیوں کے رشتہ داروں اور اپوزیشن کے قانون سازوں کی طرف سے شدید تنقید کو جنم دیا جو طویل عرصے سے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر "اپنے اتحاد کو بچانے کے لیے جنگ بندی کے معاہدے سے انکار"  کا الزام لگا  رہے ہیں۔ 

بن گویر اور سموٹریچ کی اور ان کی سیاسی جماعتوں کی حماس کے ساتھ ڈیل کر کے حماس کی قید مین موجود یرغمالیوں کو واپس لانے کی ڈیل کی مخالفت کوئی چھپی ہوئی نہیں۔  بین گویر اور سموٹریچ نے پہلے کہا تھا کہ وہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی دہشت گرد گروپ حماس کے خلاف جنگ کو ختم کرنے والے معاہدے کو قبول کرنے کے بجائے حکومت کو گرا دیں گے، لیکن سموٹریچ نے حالیہ دنوں میں اس دھمکی کو خاص طور پر دہرایا نہیں ہے۔

گزشتہ دنوں کے دوران داخلی سیاست میں دستیاب کسی ٹھوس وجہ کے بغیر یہ تاثر لیا جانے لگا تھا کہ  محض بیرونی دباؤ جس میں آئی سی سی کا غزہ جنگ کو جینوسائیڈ قرار دینا اور وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دینا، امریکہ کی موجودہ اور آنے والی حکومت کا جنگ بندی پر زور دینا سرفہرست ہیں،  نیتن یاہو کی حکومت کو حماس کے ساتھ ٹیبل پر کسی ڈیل تک لے جائیں گے۔  اب جوں ہی دوحہ میں صدر جو بائیڈن کی بنیادی تجاویز کو لے کر ایک جنگ بندی معاہدہ کے مسودہ کے حتمی شکل اختیار کر چکنے کی خبریں آئیں تو اچانک بن گویر نے پبلک پلیٹ فارم پر اپنی انتہائی سخت پوزیشن کا نہ صرف اعادہ کیا بلکہ جنگ بندی کو ہر قیمت پر ناکام بنانے کا بھی عندیہ دے دیا۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں، ایک ویڈیو کے ساتھ، جس میں  بن گویر نے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی سموٹریچ سے کہا کہ وہ نیتن یاہو کو یہ بتانے کے لیے کہ  اگر یرغمالیوں کے معاہدے کی موجودہ تجویز منظور ہوئی تووہ اتحاد کو ختم کر دیں گے،، بین گویر نے کہا کہ وہ  ایک معاہدے تک پہنچنے کے لئے گزشتہ کوششوں کو روکنے میں کامیاب ہو تے رہے ہیں۔ "میں اپنے ساتھی، وزیر بیزلیل سموٹریچ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ  (معاہدہ کی مخالف) جتھے بندی میں شامل ہوں، اور ہم مل کر نئے معاہدے کے خلاف کام کریں گے۔"

بن گویر نے کہا، "پچھلے سال  کے دوران، اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے، ہم اس معاہدے کو وقتاً فوقتاً آگے بڑھنے سے روکنے میں کامیاب رہے۔"

تاہم، بین گویر نے کہا کہ اب میرے پاس اس کو روکنے کی طاقت نہیں ہے جسے انہوں نے "ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ"  قرار دیا ہے کیونکہ نیتن یاہو نے گزشتہ سال ستمبر میں وزیر خارجہ گیدون ساعر کی نیو ہوپ پارٹی کو لا کر اتحاد کو  کچھ وسیع کر لیا تھا جس کے بعد اتحاد میں صرف بن گویر کی لیوریج کسی حد تک کمزور ہو گئی۔

بن گویر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "حال ہی میں، دوسرے اداکار  (سیاستدان) جو اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں، حکومت میں شامل ہو چکے ہیں، اور ہم اب طاقت کا توازن برقرار نہیں رکھتے۔"

بن گویر اور ان کے حامی جب سے جنگ جاری رکھنے اور حماس کو طاقت سے کچل دینے کو ہی مسئلہ کا واحد حل گردانتے ہوئے صرف چند  یرغمالیوں کی واپسی کے لئے حماس کے ساتھ بیٹھ کر سمجھوتہ کرنے، جیلوں سے حماس کی کارکنوں کو رہا کرنے اور حماس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع دینے کا ذریعہ بننے والے کسی سمجھوتہ (ڈِیل) کی مخالفت کر رہے ہیں، اس تمام عرصہ کے دوران سرائیل کے سیاسی لحاظ سے منقسم معاشرہ  مین حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی زندہ واپسی کو تمام  سیاسی اور سٹریٹیجک ترجیحات پر فوقیت دینے کے حق مین طاقتور آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ یرغمالیوں کے رشتہ دار اور احباب خود ایک بڑی قوت بن کر سامنے آئے جو تسلسل کے ساتھ تل ابیب، یروشلم اور دوسرے شہروں میں احتجاج کرتے ہیں اور شدت کے ساتھ اپنے مطالبات کے لئے لابنگ کرتے ہیں۔

Caption"اُتزما یہودیت اکیلے اس معاہدے کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ میرا مشورہ ہے کہ ہم مل کر وزیر اعظم کے پاس جائیں اور انہیں مطلع کریں کہ اگر وہ معاہدہ منظور کرتے ہیں تو ہم حکومت سے استعفیٰ دے دیں گے،‘‘ بین گویر نے سموٹریچ کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا۔  (اسکرین کیپچر/ X)

"میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ اگر ہم اپوزیشن میں ہیں تو بھی ہم وزیر اعظم کو نہیں گرائیں گے، لیکن یہ تعاون ہتھیار ڈالنے کے معاہدے کو روکنے کا ہمارا واحد راستہ ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سینکڑوں فوجیوں کی ہلاکتیں رائیگاں نہ جائیں،" بین گویر نے مزید  کہا.

اپنی پوسٹ میں، بین گویر نے مجوزہ تین مرحلوں کی ڈیل کی مخالفت کرنے کی اپنی وجوہات  بھی درج کیں۔

بین گویر نے کہا کہ یہ معاہدہ، جس میں اسرائیل سے سیکڑوں فلسطینی سیکیورٹی قیدیوں کی رہائی شامل ہوگی، غزہ میں دہشت گرد گروپوں کی بحالی اور سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے خطرہ واپس لا ئے گا۔ انہوں نے یہ بھی متنبہ کیا کہ موجودہ ڈیل غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کی رہائی کو فوری طور پر یقینی نہیں بناتی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ "بقیہ یرغمالیوں کی قسمت پر مہر لگا دیتا ہے جو  'موت کے معاہدے' میں شامل نہیں ہیں۔"

دونوں وزرا بین گویر اور بیزلل سموٹریچ کی  انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں گزشتہ انتخابات میں ایک ساتھ انتخاب لڑی تھیں، لیکن آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ بین گویر اور سموٹریچ بھی حالیہ ہفتوں میں بجٹ میں پولیس کے لیے فنڈنگ ​​کے معاملے پر ایک دوسرے سےاختلافات کا شکار رہے ہیں، پولیس کی فنڈنگ بن گویر کی وزارت قومی سلامتی کے تحت آتی ہے۔

اگرچہ سموٹریچ نے فوری طور پر بین گویر کی کال پر پبلک کے سامنے رسمی ردعمل جاری نہیں کیا، لیکن سموٹریچ نے مجوزہ ڈیل پر الگ سے اپنے ردعمل میں  پیر کے روز ہی اس معاہدے کو ایک "تباہی" قرار دیا۔

یرغمالیوں کی واپسی کی ڈیل کو ناکام بنانے پر بین گویر کے تبصرہ نے فوری طور پر غم و غصے کو جنم دیا

حماس کی قید میں بے چارگی کے عالم میں ماری گئی خاتون یرغمالی کارمل گیٹ کے ایک رشتہ دار گل ڈک مین نے کہا۔ "وہ کھلے عام اعتراف کر رہا ہے کہ اس نے سیاسی فائدے کے لیے اپنے ہاتھوں سے ایک ڈیل روکی،" ،  کارمل گیٹ کو  گزشتہ سال غزہ  کے علاقہ رفح کی ایک سرنگ میں ان کے اغوا کاروں نے ہلاک کر دیا تھا۔ ’’اگر وہ نہ ہوتا تو کارمل آج زندہ ہوتی۔‘‘

Caption کارمل گیٹ کو حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو کبوتز بیری میں ان کے والدین کے گھر سےاغوا کر کے اسیر کر لیا تھا۔ انہیں اگست 2024 کے آخر میں حماس کے اغوا کاروں نے غزہ کی ایک سرنگ میں قتل کر دیا تھا۔ وہ تل ابیب میں ملازمت کرتی تھیں اور سات اکتوبر کو اتفاق سے اپنے والدین سے ملنے کے لئے آبائی گھر پر موجود تھیں جہاں سے وہ اغوا ہو گئیں۔

 1 ستمبر 2024 کو، IDF نے جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح میں حماس کی سرنگ سے کارمل گیٹ کی موت اور لاش کی بازیابی کا اعلان کیا تھا۔ فوج کے مطابق، گیٹ کو پانچ دیگر یرغمالیوں کے ساتھ ان کے اغوا کاروں نے ان کی لاشوں کےملنے سے کچھ دیر پہلے ہی قتل کر دیا تھا۔ فوج اس علاقہ مین یرغمالیوں کی تلاش مین غالباً  حماس کے ٹھکانے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔

Captionغزہ میں 7 اکتوبر سے حماس کے دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا کیے گئے خاندان کے افراد کے ساتھ اسرائیلی، 20 نومبر 2023 کو کنیسٹ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی سماعت میں شرکت کر رہے ہیں۔ مرکز میں گل ڈک مین ہے، جس کی کزن کارمل گیٹ یرغمالیوں میں سے ایک ہے۔ (Yonatan Sindel/Flash90)

ڈک مین نے نیتن یاہو اور سموٹریچ سے مطالبہ کیا کہ وہ بین گویر کے "خون چوسنے" کی طرف متوجہ ہوں۔

اپوزیشن کا ردعمل

اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے کہا کہ بین گویر کے ریمارکس نے ان کے دعووں کو ثابت کیا کہ حکومت سیاسی وجوہات کی بنا پر معاہدہ کرنے میں ناکام رہی۔ نیتن یاہو اور حکومت نے طویل عرصے سے ان الزامات کی تردید کی ہے اور حماس کو معاہدے کی کمی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

"ایک سال سے زیادہ عرصے سے میں کہہ رہا ہوں کہ 'وہ سیاسی وجوہات کی بناء پر یرغمالیوں کے معاہدے تک نہیں پہنچ رہے ہیں' اور ہر کوئی مجھے بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، یہ چونکا دینے والی بات ہے، اور میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں،" لیپڈ نے X پر پوسٹ کیا۔ 

یائر لیپڈ جو  معاہدہ کرنے کے ضمن میں نیتن یاہو  حکومت کی نیت پر تنقید کر کے التٓ خود تنقید کا نشانہ بنتے رہے، بن گویر کے کھلے اعتراف کے بعد کہا، "اور آج بین گویر نے ایک ویڈیو نکالی اور کیمرے کو بتا دیا، پلک جھپکائے بغیر، یہ خوفناک سچائی ہے۔"

Captionاپوزیشن لیڈر اور یش اتید پارٹی کے سربراہ ایم کے یائر لیپڈ 6 جنوری 2025 کو یروشلم میں کنیسٹ میں ایک دھڑے کے اجلاس کی قیادت کر رہے ہیں (یوناٹن سنڈیل/Flash90)


زراعت کے وزیر اوی ڈشتر  Avi Dichter نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ بین گویر اور سموٹریچ موجودہ معاہدے کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

"بین گویر اور سموٹریچ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے ووٹ غزہ سے ہمارے بچوں کی واپسی کا فیصلہ نہیں کریں گے،" انہوں نے X پر لکھا، "اس وقت، ہمیں ایک سخت انتخاب کرنا ہے - لیکن یہ ہمارا فرض ہے!"

ڈشتر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کابینہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ تمام یرغمالی، "ان میں سے آخری تک، اپنے اہل خانہ کے پاس واپس آئیں گے۔"

اس معاہدے کے لیے بظاہر سیکیورٹی کیبنٹ اور حکومت کی طرف سے منظوری درکار ہوگی، لیکن کنیسٹ ووٹ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ نیتن یاہو کی حکومت کے ارکان ممکنہ طور پر ایک معاہدے کے حق میں ووٹ دیں گے، چاہے دو انتہائی دائیں بازو کے رہنما اس کی مخالفت کریں۔

اسرائیل کی میڈیا آؤٹ لیٹ کان پبلک براڈکاسٹر نے اطلاع دی ہے کہ سموٹریچ منگل کو کسی وقت  نیتن یاہو سے یرغمالیوں کے معاہدے کے بارے میں ملاقات کرنے والے تھے۔ اس ملاقات کے متعلق بعد مین کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔

Captionاٹھائیس دسمبر 2022 کو یروشلم میں کنیسیت میں ووٹنگ کے موقع پر مذہبی صیہونی پارٹی کے سربراہ  رکن کنیست بیزلل سموٹریچ (دائیں)  اتماز یہودیت کے رکن کنیسٹ اتمار بن گویر  کے ساتھ۔ (فوٹو کریڈٹ: Olivier Fitoussi/Flash90)


سموٹریچ کے مدار میں موجود ذرائع نے بتایا کہ وزیر اس معاہدے کی تفصیلات اور اثرات پر غور و خوض کر رہے ہیں اور سیاسی نتائج سے آزاد فیصلہ کریں گے۔

پیر کے روز ہونے والی بات چیت میں ایک اہم پیش رفت کی نشاندہی کرنے والی گھمبیر اطلاعات کے بعد، سموٹریچ نے خبردار کیا کہ وہ جس انتہائی دائیں بازو کی مذہبی صیہونیت پارٹی کے سربراہ ہیں، اس معاہدے کے ساتھ نہیں جائیں گے جو ان کے بقول "اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے تباہی" کا باعث بنے گی۔

اتوار کے روز، ایک سیاسی ذریعے نے، والا نیوز آؤٹ لیٹ کو بتایا کہ نیتن یاہو امید کر رہے تھے کہ وہ سموٹریچ کو اتحاد میں رہنے کے لیے راضی کریں گے چاہے وہ کسی معاہدے کی حمایت نہ کریں، مبصرین کا خیال ہے کہ بین گویر معاہدے کے خلاف ووٹ دینے کے بعد حکومت چھوڑ دیں گے۔

انتہائی دائیں بازو کی مخالفت  کا  تدارک

اس دوران ایک دلچسپ ڈیویلپمنٹ میں نیتن یاہو حکومت کے مخالف لیڈر  لیپڈ نے ایک "حفاظتی نیٹ" کا وعدہ کیا ہے تاکہ نیتن یاہو کو معاہدے کو آگے بڑھانے کے قابل بنایا جا سکے یہاں تک کہ اگر اتحاد پارلیمنٹ میں بھی  اپنی اکثریت کھو دیتا ہے۔

Caption مظاہرین 13 جنوری 2025 کو تل ابیب میں IDF کے کریا ہیڈ کوارٹر کے باہر غزہ  میں حماس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ (Itai Ron/Flash90)

سات اکتوبر 2023 کے حملے اور غزہ جنگ کے سرسری نقصانات

خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے ہاتھوں 7 اکتوبر 2023 کو اغوا کیے گئے 251 یرغمالیوں میں سے 94 غزہ میں موجود ہیں، جن میں کم از کم 34  اب لاشیں ہیں جن کی مختلف وقتوں میں موت کی مختلف وقتوں میں IDF نے تصدیق کی ہے۔ جن یرغمالیوں کی رہائی کے لئے اسرائیل کی رائے عامہ ٹیبل پر حماس کی شرائط کو ماننے پر زور دے رہی ہے ان 7 اکتوبر کے غیر معمولی حملے میں اسرائیل کے اندر سے اغوا کر کے فوراً غزہ پہنچا دیا گیا تھا۔ چند گھنٹوں کے اس حملے میں حماس کے ہزاروں مسلح کارکنوں نےشرکت کی  اور  1,200 افراد کو ہلاک کیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس حملے سے شروع ہونے والی غزہ جنگ میں حماس کے بیس ہزار سے زیادہ کارکن مارے گئے جبکہ عام فلسطینیوں کی اموات کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے جن میں بچے اور عورتیں بڑی تعداد میں ہیں۔ پندرہ ماہ سے جاری جنگ کے نتیجہ میں غزہ میں انفرا سٹرکچر تباہ ہوا ، بیس لاکھ افراد نے ہجرت کی تاہم حماس کی درجنوں سرنگیں بھی تباہ ہوئیں، اس کی قیادت کی کئی صفوں کا صفایا ہو گیا اور سات اکتوبر کو حملے کی پلاننگ کرنے والے اور براہ راست شریک ہزاروں میں سے بھی بیشتر مارے گئے جبکہ اسرائیل کی فوج کے بھی ہزاروں اہلکار مارے جا چکے ہیں۔

حماس نے نومبر  2023کے آخر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران 105 شہریوں کو رہا کیا، اور اس سے پہلے چار مغویوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔ آٹھ یرغمالیوں کو فوجیوں نے زندہ بچا لیا ، اور 40 مغویوں کی لاشیں بھی برآمد کر لی گئی ہیں، جن میں تین اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غلطی سے مارے گئے تھے جب کہ وہ اپنے اغوا کاروں سے تقریباً فرار ہو چکے تھے۔

حماس نے 2014 اور 2015 میں پٹی میں داخل ہونے والے دو اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ساتھ 2014 میں ہلاک ہونے والے دو IDF فوجیوں کی لاشیں بھی اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔