ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بلا کیوں ٹوٹا؟ ذمے دار کون؟

بلا کیوں ٹوٹا؟ ذمے دار کون؟
کیپشن: File photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(احمد منصور ) سابق وزیراعظم عمران خان نے کچھ عرصہ قبل ہی یہ اعتراف کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنا ان کی بڑی غلطی تھی ، انہوں  نے اس بات کا اعتراف انصاف لائرز فورم کے ایک اجلاس میں کیا تھا ، عمران خان نے اعتراف کیا کہ متعلقہ افراد نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے بارے میں انہیں غلط گائیڈ کیا۔

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے اپنی غلطی کا برملا اعتراف کے ایسے ہی واقعات کے تناظر میں یہ بھی ممکن ہے کہ آخر کار ایک دن وہ یہ اعتراف کرتے بھی نظر آئیں گے کہ تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان چھن جانے میں قصور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نہیں بلکہ ان کے اپنے مشیروں اور قانونی ٹیم کا تھا  کہ جنہوں نے ان کی سزا کے حوالے سے آئینی و قانونی صورتحال سے انہیں بروقت خبردار نہیں کیا اور نئے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے میں اتنی تاخیر کرا دی کہ پھر افراتفری میں معاملات قانون کے مطابق نہ چلائے جا سکے اور سختی سے قانون و آئین کے مطابق چلنے کا ریکارڈ رکھنے  کی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس اس کے سوا دوسرا فیصلہ دینے کا آپشن ہی نہیں تھا جو انہوں نے دیا ۔ 

 بلے کے انتخابی نشان کے کیس میں سیاسی مصلحتوں کا اسیر ہو کر   غیر آئینی مگر پاپولر فیصلہ دینے  کے بجائے چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے صرف اور صرف آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینے کی اپنی جس روایت کو آگے بڑھایا ہے اسے آئینی و قانونی ماہرین اور  سیاسی جماعتوں کی بھاری اکثریت کی طرف سے سراہا جا رہا ہے تاہم پی ٹی آئی کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی طرف سے سخت تنقید بھی جاری ہے ۔

 سینئر صحافی اور یوٹیوبر اسد علی طور نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اپنے مقام سے ہٹ جانے کا الزام لگایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تو آج بھی اسی طرح سختی سے آئین و قانون کے مطابق چلنے کی سوچ پر کاربند ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ خود ہمارے بھائی محترم اسد علی طور نے اپنی جگہ بدل لی ہے ، سیاسی و حکومتی معاملات  اور دوسرے آئینی اداروں کی حدود  میں عدلیہ کی مسلسل مداخلت کی روایت کی وہ عمر بھر مخالفت کرتے رہے لیکن پاپولر ازم کی رو میں بہہ کر آج وہ بھی قاضی فائز عیسیٰ کو ہی  مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔
 ضرور پڑھیں:’8 فروری 2024کو الیکشن نہیں ہوں گے‘
ہمیں یاد ہے کہ ویڈیوز پر ویوز اور چینل پر سبسکرائبرز بڑھانے اور ڈالر کمانے والے کھلاڑی یوٹیوبرز پر  طور صاحب بڑی شد و مد کے ساتھ تنقید کیا کرتے تھے ، لیکن یہ دیکھ کر دلی دکھ اور افسوس ہو رہا ہے کہ آج وہ خود انہی کی صف میں شامل ہو گئے ہیں ، اس لئے اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہیں ہو گا کہ طور صاحب ! جگہ آپ نے ہی بدلی ہے ۔ قاضی تو آج بھی وہیں اپنے مقام پر کھڑا ہے ۔ یہ بھی اب ایک فیشن بن گیا ہے کہ پاپولر ازم کی رو میں بہہ کر وہ بات کہی جائے کہ جس پر تالیاں زیادہ بجیں ، اس فن میں ملک کے سینئر صحافی کالم نویس اور اینکر پرسن حامد میر  بہت طاق ہیں اور اپنی اسی فطری صلاحیت کی وجہ سے ان کا شمار بھی "سدا بہار" صحافیوں اور "ایور گرین اینکرز"  میں ہوتا ہے ۔

  آج کل میر صاحب بھی  چیف جسٹس پر بہت برس رہے ہیں لیکن اس سوال کا ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں کہ  اپنے تمام امیدواروں کیلئے ایک ہی انتخابی نشان یقینی بنانے اور خواتینِ و اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے محروم ہونے سے بچنے کا پکا انتظام کرنے میں پی ٹی آئی  نے ناقابلِ تلافی تاخیر کرنے والی پہاڑ جیسی غلطی  کیوں کی ؟ اور یہ کہ جب ایسا کیس کسی عدالت کے سامنے آئے جس میں قانونی و آئینی ضابطوں کی دانستہ سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہوں تو غیر قانونی و غیر آئینی فیصلہ دے کر سپریم کورٹ کا دوسرے آئینی ادارے کی حدود میں گھس بیٹھ کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ 

 سیاسی مصلحتوں کا اسیر ہونے کی بجائے صرف اور صرف آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینے کی جو روایات آج قاضی فائز عیسیٰ قائم کر رہے ہیں اگر ہماری اعلیٰ عدالتیں یہ کام پہلے کر لیتیں تو ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام کی اس دلدل میں  دھنسنے سے بچ سکتا تھا جہاں آج پھنسا ہوا ہے ۔ پی ٹی آئی  گلی کے رونے والے اس بچے جیسے طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہے جو ہر روز نئی شکایت لے کر "دادا ابو" کے پاس پہنچ جاتا ہے ،یہ لوگ  آئے روز عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جج صاحبان اسی طرح ہر معاملے میں ٹانگ اڑائیں جس طرح پچھلے پانچ دس برسوں کے دوران کچھ چیف جسٹس صاحبان کا افسوسناک طرز عمل رہا ۔ 

  الیکشن کمیشن ایک خود مختار آئینی ادارہ ہے اگر اس کے ایک ایک فیصلے کو دوسرے آئینی ادارے کے ذریعے سبوتاژ کیا جائے گا تو آئینی اداروں کی خودمختاری کا وہ آئینی تصور باطل ہو کر رہ جائے گا جو 1973ء کے آئین کی روح ہے ۔ عمران خان کو تو شاید اس نازک اور باریک نکتے کی سمجھ نہ آئے کہ ایک کھلاڑی کو زبردستی بطور سیاست دان مسلط تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے دماغ میں اعلیٰ سیاسی بصیرت ٹھونسی نہیں جا سکتی، تاہم یہ امر باعث حیرت ہے کہ ان کی قانونی ٹیم کے سینئر ممبران بھی تقسیم اختیارات اور اداروں کی آزادی و خود مختاری کے آئینی تصور سے اتنے نابلد کیوں ہیں ؟

 اپنی حالیہ بدترین سیاسی ناکامیوں کا ملبہ قاضی فائز عیسیٰ پر ڈالنے کی بجائے پی ٹی آئی اور عمران خان کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئے ، یہ سیاسی بقراطوں کا ٹولہ اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ اپنے تمام امیدواروں کیلئے ایک ہی انتخابی نشان یقینی بنانے اور خواتینِ و اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے محروم ہونے سے بچنے کا پکا انتظام کرنے میں ان سے کہاں کہاں پہاڑ جیسی غلطیاں ہوئیں ۔ کیا قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں کہا تھا کہ اپنے چیئرمین کے سزا یافتہ ہونے کے بعد نئے چیئرمین کے انتخاب میں اتنی دیر کریں کہ عام انتخابات سر پر آ جانے کی وجہ سے پھر افراتفری میں یہ کام کرنا پڑے 
 
کیا یہ بلنڈر بھی قاضی فائز عیسیٰ کی وجہ سے کیا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کو چوری چھپے اور ضروری قانونی و آئینی تقاضے پورے کیئے بغیر  جعلسازی کے انداز میں مکمل کر کے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری جائے ،یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ متبادل انتخابی نشان کا انتظام کرنے کیلئے تحریک انصاف نظریاتی کے چیئرمین اختر اقبال ڈار سے ڈیل کرنے کا مشورہ بھی کیا قاضی فائز عیسیٰ نے دیا تھا کہ جو چند گھنٹے بھی حالات کا جبر نہ سہہ سکا ۔

 دور اندیشی اور سیاسی بصیرت سے عاری ’دولے شاہ کے چوہے‘ جمع کر کے آپ ہڑبونگ تو مچا سکتے ہیں ، چائے کی پیالی میں طوفان  بھی اٹھا سکتے ہیں ، لیکن تادیر قائم رہنے والی حکمت عملی اور دیوار کے پار دیکھنے والی عقل و فہم سے آراستہ گیم پلان تشکیل نہیں دے سکتے ۔پی ٹی آئی کو یہ مان لینا چاہئےکہ حالیہ چند برسوں کے دوران ان کا ہر فیصلہ نقائص سے بھرپور ہونے کی وجہ سے درپیش چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے قابل نہ تھا ، جو بھی فیصلے کیے گئے وہ نہ تو سیاسی و انتظامی حوالے سے پائیدار تھے  اور نہ ہی مطلوبہ آئینی و قانونی معیار پر پورا اترتے تھے۔ اس لیے جونہی حالات کی تپش کی زد میں آئے، پگھل کر رہ گئے۔