( راؤ دلشاد ) جرمن جغرافیہ دان وتخلیق کاروں کے انیسویں صدی کے تخلیق کردہ انسانی موکھٹے ایک سوساٹھ سال بعد لاہور میوزیم کی زینت بن گئے، چیف جسٹس ریٹائرڈ انوارالحق نے موکٹھوں کی نمائش کا افتتاح کیا تو ڈائریکٹر لاہور میوزیم طارق محمود جاوید نے برصغیر کے انسانی موکھٹوں کے تاریخی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔
لاہور میوزیم کی زینت بننے والے موکھٹے مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، کشمیری، افریقی اور برصغیر کے باشندوں کے ہیں۔ یہ موکھٹے 1854 میں جرمن جغرافیہ دان وتخلیق کار تین بھائیوں ہرمن، اڈالف اور رابرٹ کی تخلیق ہیں، ان موکھٹوں کو دیکھ کر سبھی نے خاصی دلچسپی لی۔
موکھٹے 1860 میں وزیر خان بارہ دری میں پہلی مرتبہ نمائش کیلئے رکھے گئے، ہندوستانی افراد کے 275 دھاتی موکٹھوں میں سے پچاس موکٹھے لاہور میوزیم جبکہ پچاس بھاؤ دھاجی لارڈ میوزیم ممبئی کو دیئے گئے۔ باقی ماندہ ایک سوپچہتر موکٹھے جرمنی اور برطانیہ کے مختلف اداروں کو بھجوائے گئے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد قصہ پارینہ بن گئے۔
سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ریٹائرڈ انوارالحق نے موکھٹوں کی نمائش کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر انکا کہنا تھا کہ لاہور میوزیم صدیوں پر محیط تاریخی و ثقافتی ورثے کا امین ہے۔ لاہور میوزیم نے ہمیشہ تاریخی ورثے کو نئی نسل سے روشناس کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ڈائریکٹر لاہور میوزیم طارق محمود جاوید نے کہا کہ دھاتی موکھٹے کی بہترین کولیکشن صرف لاہور میوزیم کی زینت بن سکی ہے جبکہ دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں موکھٹے کہیں بھی موجود نہیں۔
ایڈیشنل سیکرٹری انفارمیشن فرحت جبیں کا کہنا تھا کہ نمائش کو دیکھ کر برصغیر کے تمام مذاہب اور رنگ ونسل کے انسانوں کے خدوخال سے آشنائی ہوتی ہے۔ افتتاحی تقریب میں ایڈیشنل ڈائریکٹر نوشابہ انجم، عاصم رضوان، ثوبیہ سلیم، عظمی عثمانی، عفت عظیم، احتشام عزیز اور خاور اقبال سمیت دیگر شریک تھے۔
بلاشبہ یہ انسانی موکٹھے اس خطے کی سماجی، سیاسی اور معاشرتی حقیقتوں کا عکس قرار دیئے جاسکتے ہیں جن کا مطالعہ آج بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔