سعودی عرب کیجانب سے اتنی بڑی سرمایہ کاری آخر کیوں؟

15 Feb, 2019 | 10:04 AM

ملک ریاض

( ملک ریاض) سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دو روزہ دورے پر پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ولی عہد کے شایان شان تیاری کی گئی ہے ،یہ کہنا غلط نہ ہوگا،بس! سرزمین پاکستان ہوگی ،باقی سارا سسٹم سعودی ولی عہد کااپنا ہوگا۔یعنی مختلف رپورٹس کے مطابق 80 کینٹنرز سامان کے پہنچے ہیں۔دس لگژری گاڑیاں، یہاں تک قبلہ محمد بن سلمان کے فرنیچر سے لیکر جم کا سامان بھی ایک لمبی مسافت طے کرتے ہوئے صرف چند گھنٹے قیام کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔

خیر! ہمیں کیا اعتراض ،شہزادوں کا اپنا لائف سٹائل ہے۔پولیس،رینجرزاورفوج سکیورٹی کے فرائض سر انجام دے گی۔سعودی ولی عہد کی اپنے سکیورٹی انکے اطراف ہوگی۔ ہمارے جوان صرف دور کھڑے ہوکر نظارہ کریں گے۔ولی عہد ایم بی ایس کو زمین سے لیکر فضا تک پروٹوکول دیا جائے گا۔ مختصر یہ کہ حکومت ہر وہ ممکن کوشش کرے گی جس سے دورہ کامیابی کی منازل طے کرے ،ولی عہد خوش ہوجائے اور دنیا کو پیغام جائے کہ پاک سعودی دوستی کنکریٹ کی طرح مظبوط ہے۔چند دن پہلے سابق آرمی چیف اور اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ راحیل شریف نے اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی اور دورے کے انتظامات کے حوالے سے بات چیت کی۔تاکہ تیاری میں کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔

دونوں ملکوں کی اعلیٰ شخصیات اور عام عوام سمیت،بھارت،امریکہ اور خاص طورپہ چین کی نظریں اس دورے پہ لگی ہوئی ہیں۔ماضی میں بھی سعودی عرب کے ولی عہد پاکستان تشریف لاتے رہے ہیں۔ لیکن! اس بار دورہ اس لئے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے کیونکہ ماضی میں سعودی حکومت کی طرف سے زیادہ تر گرانٹس دی جاتی تھی۔اس بار سعودی عرب اور پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کے معاہدوں پہ دستخط ہونے کے امکانات روشن ہیں۔یہ بات بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہاں ایک نئی حکومت ہے،نیا وزیراعظم ہے وہ وزیراعظم ،جو کرکٹ کی دنیا کا ہیرو رہا ہے۔اس کی ذات کی اپنی بھی کریڈیبیلٹی ہے ،جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے بعد سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ایک غیر معمولی اہمیت دی گئی۔جہاں ایک طرف دنیا کے بڑے ممالک نے نہ آنے کا اعلان کیا تھا۔

وہیں سعودی عرب کے ولی عہد وزیراعظم عمران خان کو اپنی گاڑی میں بیس منٹس تک گھماتے رہے۔اسی دوران وزیراعظم عمران خان نے انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دی ،جو انہوں نے قبول کی۔اس دورے سے پہلے تمام تر معاملات سفارتی سطح پہ طے کیے جاچکے ہیں۔اس سرمایہ کاری کا محور بحیرہ عرب میں واقع اسٹریٹجک اہمیت کی حامل گوادر بندرگاہ پہ دس ارب ڈالر کی آئل ریفائنری اور آئل کمپلیکس کی تعمیر ہے۔اور یہ جگہ سی پیک منصوبے کا مرکزی مقام ہے۔امریکی جریدے وال سٹریٹ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی۔

رواں ماہ کے آغاز میں ایس اینڈ پی کی جاری کردہ ریٹنگ کے مطابق پاکستان کی ریٹنگ بی سے بی مائنس کردی گئی۔جو ملک کی معاشی حالت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسے حالات میں سعودی عرب کی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری ہر گزرتے دن کیساتھ گرتی معیشت کو نئی زندگی ملے گی۔ سعودی سرمایہ کاری کا بنیادی مقصد بیرون قرضوں کے دباﺅ اور غیر ملکی کرنسی کی کمی کے مسائل حل کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ سعودی عرب پہلے بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں تین ارب ڈالر جمع کر واچکا ہے تاکہ پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور روپے کی گرتی قدر کو سہارا دے سکے۔

سعودی عرب یہاں گوادر پورٹ کا بھرپور استعمال کرنا چاہتا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ توانائی سیکٹرز میں بھی معاہدوں پر دستخط ہونگے۔ اب بہت سارے حلقوں میں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں ،کہ سعودی عرب ماضی میں صرف پاکستان کو گرانٹس کی حد تک مدد کرتا تھا۔اب اتنی بڑی سرمایہ کاری کیوں؟

لیکن! شاید وہ دوسرے زاویے سے کیوں نہیں سوچتے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی عرب ہمارے بغیر دو ہفتے بھی نہیں چل سکتا۔اور سب کو پتہ ہے اس وقت سعودی عرب کے امریکہ کیساتھ بہت گہرے مراسم ہیں۔اسکی ایک جھلک امریکی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہے کہ کس طرح امریکہ خاموش رہا۔

اب امریکہ چین کو ترقی کرتے نہیں دیکھنا چاہتا ،اور چین کسی ملک کی سی پیک میں کسی بھی لیول پہ شمولیت نہیں چاہتا۔اور وزیر اعظم عمران خان نے حکومت میں آتے ہی سی پیک منصوبے کو دوبارہ ری وزٹ کرنے کا کہا ،جس سے چائینہ ناراض ہوا،اسکے فوراً بعد آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے چینی صدر کی دعوت پہ ان سے ملاقات کی۔

پھر چند مہینے پہلے وزیراعظم عمران خان نے دورہ چین کیا ،لیکن! کوئی خاص فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔اس ساری صورتحال کو امریکہ نے آبزرو کیا۔اب امریکا بھی چاہتا ہے کوئی ایسا ملک ہو جوسی پیک منصوبے میں کسی نہ کسی طریقے کسی بھی سطح پہ شامل ہو،جس کو چین نہ چاہتے ہوئے بھی ہضم کرسکے۔ جس سے امریکا ضرورت کے وقت کام نکلو اسکے اور پاکستان اسکی بات مان سکے۔تواس صورتحال میں سعودی عرب بیسٹ چوائس ہے۔

اب دوسری طرف سعودی عرب خود بھی اپنی اکانومی کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔کیونکہ اب وار ہتھیاروں کی کم اور معیشت کی زیادہ ضرورت ہے۔ کوئی بھی ملک کسی بھی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرتے وقت آنےوالے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے۔سعودی عرب کو پتہ ہے کہ مشکل حالات میں صرف پوری دنیا میں پاکستان ہی انکی مخلص ہوکر مدد کرسکتا ہے۔اسکی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کے سعودی عرب میں مذہبی مقامات اور دوسرا پاکستان کا ایٹمی اسلامی ملک ہونا ہے۔

مطلب تاقیامت پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ حالات ٹھیک رکھے بغیر گزارا نہیں۔اس لئے سعودی عرب محفوظ سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی مطمئن ہے۔اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس دورے کے بعد تمام ممکن تفصیلات عوام کے سامنے رکھے۔ اور ماسٹر پلان میں خود بھی محفوظ رہے۔اور ماضی اور حال کے دوستوں اور دوشمنوں پہ بھی گہری نظر رکھے۔

مزیدخبریں