(رضوان نقوی) آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے ٹینڈرز میں وسیع پیمانے پر بے ضابطگیوں کا معاملہ مزید اُلجھ گیا۔ پانچ سال قبل وزیر اعلیٰ کی قائم کردہ تحقیقاتی ٹیم کے ممبر ایم ڈی انجینئرنگ کنسلٹنسی سروسز پنجاب کرامت اللہ چوہدری بھی ملوث نکلے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی آشیانہ ہاؤسنگ سکیم برکی روڈ کے ٹینڈرز میں وسیع پیمانے پر بے ضابطگیوں کا معاملہ 25 فروری 2012 کو منظر عام پر آیا تھا۔ ٹینڈرز کے عمل میں حصہ لینے والے کنٹریکٹر "ایم ایس کانپرو" نے انکشاف کیا کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم برکی روڈ کا ٹھیکہ من پسند ٹھیکیدار" چوہدری اے لطیف اینڈ سنز" کو دینے کیلئے پنجاب لینڈ ڈویلیمپنٹ کمپنی کے پروجیکٹ ڈائریکٹرمعظم علی کی رہائشگاہ پر بولی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسی رات ایک خفیہ ملاقات ہوئی تھی۔
ٹینڈرز میں بے ضابطگیوں کا شور مچنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے انکوائری کیلئے اس وقت کے سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ کی سربراہی میں انکوائری ٹیم تشکیل دے کر اڑتالیس گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی۔ وزیراعلیٰ نے تحقیقاتی ٹیم میں ٹینڈرز بے ضابطگیوں کے ملزم ایم ڈی ای سی ایس پی کرامت اللہ چوہدری کو بھی ممبر بنا دیا تھا۔ انکوائری ٹیم میں چیف انجینئر ہائی ویز خیام قیصر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ وقار اے خان،ممبر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر محمد عابد بودلہ بھی شامل تھے۔
وزیر اعلیٰ کی تحقیقاتی ٹیم نے 26 فروری 2012 کو دوپہر تین بجے پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیوآفیسر طاہر خورشید سے ملاقات کر کے ان سے ٹینڈرز کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ آشیانہ ٹو کی پروکیورمنٹ اور سول ورکس کا جائزہ لیا گیا۔
وزیراعلیٰ کی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ "ایم ایس ارشد اینڈ کمپنی" نے ٹینڈرز کیلئے 1 ارب 60 کروڑ 50 لاکھ ، جبکہ ایم ایس کانپرو سروسز نے 1 ارب 54 کروڑ 30 لاکھ روپے میں بولی دی۔ اسی طرح ایم ایس چوہدری عبدالطیف اینڈ سنز نے 1 ارب 53 کروڑ 40 لاکھ روپے میں بولی دی۔ بولی کے عمل کے بعد جب "سی ڈی آر" کا معائنہ کیا گیا تو سب سے کم بولی دینے والی کمپنی چوہدری عبدالطیف اینڈ سنز کی بنک گارنٹی کے طور پر ظاہر کی گئی رقم ایک"نان شیڈولڈ بنک"میں تھی۔ "بڈنگ دستاویزات "میں پہلے ہی واضع ہدایات تھیں کہ "نان شیڈولڈ بنک"میں رقم ظاہر کرنے والے کنٹریکٹر ٹینڈرز میں شامل ہونے کے مجاز نہیں ہونگے۔ پہلا ٹینڈر نان شیڈولڈ بنک میں رقم کی موجودگی کے باعث منسوخ کر دیا گیا۔
دوسری مرتبہ دوبارہ بولی کا عمل 3 دسمبر 2012 کو مکمل کیا گیا اور چوہدری عبدالطیف اینڈ سنز نے 1 ارب 49 کروڑ روپے میں سب سے کم بولی دی۔ بولی میں حصہ لینے والے تمام بولی دہندگان کی دستاویزات "انجینئرنگ کنسلٹنسی سروسز آف پنجاب" کو بھیج دی گئیں۔ 24 جنوری 2013 کو سب سے کم بولی لگانے والے ایم ایس چوہدری اے لطیف اینڈ سنز کی دستاویزات پر لگائے گئے تمام اعتراضات دور کر کےآشیانہ ٹو کا ٹھیکہ دے دیا گیا۔ 27 فروری کو"ایم ایس کانپرو" کے چیئرمین نے تحقیقاتی کمیٹی کے ایک ممبر کو ٹینڈرز میں ملی بھگت اور خفیہ ملاقات کے "ڈاکیو منٹری ثبوت" پیش کر دیئے۔ وزیر اعلیٰ کی انکوائری کمیٹی نے ٹینڈرز کے عمل میں بے ضابطگیاں ثابت ہونے پر معاملہ وزیر اعلیٰ انسپیکشن ٹیم کو بھجوانے کی سفارش کی۔ وزیراعلیٰ نے یہ معاملہ مزید انکوائری کیلئے اینٹی کرپشن کو بھجوا دیا۔
اینٹی کرپشن نے پانچ سال بعد آشیانہ ہاؤسنگ سکیم برکی روڈ میں وسیع پیمانے پر بے ضابطگیوں کی ایف آئی آر ایک ماہ قبل درج کی۔ اینٹی کرپشن کی تحقیقات کے دوران ٹینڈر دستاویزات میں ٹیمپرنگ کر کے چوہدری اے لطیف اینڈ سنز کے مالک عامر لطیف کو ناجائز طور پر فائدہ پہنچانے کا انکشاف ہوا۔
اینٹی کرپشن نے ایف آئی آر میں پروجیکٹ ڈائریکٹر پی ایل ڈی سی معظم علی، نچوہدری اے لطیف اینڈ سنز کے مالک عامر لطیف، پرائیویٹ فرنٹ مین برہان علی، ڈائریکٹر پی ایل ڈی سی خواجہ منصور مظہر، ایم ڈی ای سی ایس پی کرامت اللہ چوہدری، سینئر جنرل مینیجر ای سی ایس پی بشیر احمد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا لیکن تاحال بااثر ملزمان گرفتارنہ ہوسکے۔