ویب ڈیسک : پاکستان میں ادبی تخلیقی صلاحیتوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے لیکن نوآموز لکھاری اپنی تخلیقات کو شائع کروانے یا کتابی صورت میں لانے کے لیے مسودے کو لے کر پبلشرز تلاش کرتے رہتے ہیں
مصنف، لوک ورثہ کے بانی عکسی مفتی نے ملک کی اشاعتی صنعت میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے پبلشرز زیادہ تر معروف مصنفین کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ چھوٹے پبلشرز اکثر مصنفین سے کتاب چھاپنے کے لیے پیسے طلب کرتے ہیں۔روایتی ماڈل کی بات کریں تو مصنفین کو ان کے کام کی رائلٹی ملتی ہ تھی لیکن موجودہ صورت حال میں نئے لکھاریوں کو اپنی کتب چھاپنے کے لیے پبلشرز کو پیسے دینا پڑتے ہیں جبکہ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کی کتب ملک کے دیگر حصوں تک پہنچے گی بھی یا نہیں ۔ اردو ادب کی ڈیمانڈ خاص طور پر بھارت میں، بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہ طلب مڈل مین پوری کررہے ہیں جو پاکستانی سستی کتابیں خرید کر انہیں مہنگے داموں بھارت میں فروخت کرتے ہیں لیکن اس کی مصنفین یا پبلشرز کو رائلٹیز نہیں ملتی۔
عکسی مفتی نے بتایا کہ اکیڈمی آف لیٹرز، نیشنل بک فاؤنڈیشن اور نیشنل لینگویج پروموشن ڈیپارٹمنٹ (NLDP) جیسے ادارے پڑھنے اور لکھنے کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ادارے اپنا بنیادی مقصد بھول کر خود کتابیں شائع کر رہے ہیں جس سے اشاعتی صنعت مزید کمزور ہو رہی ہے۔
عکسی مفتی کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے اداروں کو کتابیں شائع کرنے کے بجائے پبلشرز کی مدد اور تعاون پر توجہ دینی چاہیے تاکہ پاکستان میں ایک مضبوط ادبی ماحولیاتی نظام قائم ہو سکے، جس سے نوآموز مصنفین کے کام کو بھی سامنے لایا جا سکے ۔پاکستان میں ادب کے میلے جیسے آکسفورڈ لٹریری فیسٹیول اور اسلام آباد لٹریری فیسٹیول کی کامیاب تقریبات ادب کی بڑھتی ہوئی مانگ اور معاشرتی سطح پر ادب کے لیے بڑھتے ہوئے جذبے کو ظاہر کرتی ہیں، جس سے کتابوں کی فروخت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔