( قیصر کھوکھر) لاہور کی تاریخ میں ایک بدترین واقعہ رونما ہوا ہے جب وکلاءکے ایک گروہ نے امراض قلب کے ہسپتال پر حملہ کردیا اور مریضوں، ڈاکٹروں، نرسوں اور ہسپتال کے دیگر عملے کو مار کٹائی کا نشانہ بنایا، جس سے قیمتی انسانی جانیں چلی گئی ہیں، میں اس سارے واقعہ کا ذمہ دار صرف اور صرف انتظامیہ کو سمجھتا ہوں، جنہوں نے بروقت کارروائی نہیں کی، جب وکلاءعدالتوں سے چلے تھے اور ایک دن قبل ہی سپیشل برانچ اور آئی بی نے بھی رپورٹ کر دی تھی کہ وکلاءہسپتال پر حملے کا پلان تیار کر رہے ہیں لیکن اس کا بروقت کوئی تدارک نہیں کیا گیا ۔
یہ واقعہ ایسے ہی ہوا ہے کہ امریکہ اسامہ بن لادن کو لے گیا اور حکومت پاکستان کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ، سپیشل برانچ اور آئی بی کس مرض کی دوا ہیں ۔ ان کی رپورٹ سے استفادہ کیوں نہ کیا گیا اور حکومت اور انتظامیہ نے ہسپتال کی سکیورٹی کےلئے بروقت پولیس فورس کیوں تعینات نہ کی اور کیوں نہ اینٹی رائٹ فورس کو متحرک کیاگیا کہ وہ ہسپتال پہنچ کرصورت حال کو کنٹرول کریں، یہ درست ہے کہ یہ وکلاءکا ایک ظلم ہے لیکن ساتھ ساتھ انتظامیہ کی بے حسی اور ناکامی بھی شامل ہے ، دشمن جنگ کے دنوں میں بھی ایک دوسرے کے ہسپتالوں اور مریضوں پر حملہ نہیں کرتے ہیں اور ہسپتال پر حملہ جنگی جرم سمجھا جاتا ہے لیکن لاہور شہر میں پڑھے لکھے وکلاءنے دل کے ہسپتال پر دھاوا بول دیا اور ہسپتال عملہ کو بلا تفریق تشدد کا نشانہ بنایا اور مریضوں کے ماسک چھین لئے اور مریضوں کو لگی ڈرپس پھینک دیں جس سے انسانیت بھی شرما گئی ہے ۔
ایک وقت تھا کہ سکھ لاہور کے دورے پر تھے کہ اچانک سکھوں نے شاہی محلے کا رخ کر لیا تو اس وقت کے ایس ایس پی لاہور شیخ اسرار احمد نے فوری طور پر متعلقہ تھانوں کی نفری کو موو کرایا اور سکھوں کو شاہی محلے پہنچنے سے پہلے ہی روک لیا گیا اوروہ رات کا واقعہ تھا لیکن وکلاءکاپی آئی سی پر حملہ تو دن دہاڑے کا واقعہ ہے جہاں پر میڈیا مسلسل رپورٹ کر رہا تھا کہ وکلاءہسپتال کی طرف مارچ کر رہے ہیں اور سینکڑوں وکلاءحملے کی نیت سے دل والے ہسپتال جا رہےہیں، لیکن لاہور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ پولیس موقع پر بھی موجود تھی لیکن انہوں نے بھی وکلاءکو نہیں روکا اور پولیس افسران نے موقف اختیار کیا ہے کہ وکلاءکے ساتھ لڑائی کی صورت میں الٹا مقدمات پولیس پر درج ہو جاتے ہیں اور پولیس والوں کی نوکریاں چلی جاتی ہیں ۔ لہٰذا کوئی بھی پولیس افسر وکلاءپر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا ہے کیونکہ بعد میں ان پولیس افسران کو حکومت تحفظ فراہم نہیں کرتی ہے اور پولیس افسران بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں،ایک پولیس افسر نے سوشل میڈیا پرسٹیٹس لگایا ہے کہ ایک عدالت کو وکلاءنے تالا لگایا اور پولیس نے یہ تالا کھلوادیا لیکن بعد ازاں پولیس پر ہی مقدمہ درج کر لیا گیا اور پولیس والے ابھی تک وہ مقدمہ بھگت رہے ہیں۔
لہٰذا پولیس ذہنی طور پر وکلاءسے خوف زدہ رہتی ہے اور اسی خوف کی وجہ سے پولیس نے وکلاءکے خلاف بروقت کارروائی نہیں کی ۔ یہ پولیس افسران کا جواب مناسب نہیں۔ وکلاءسے عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنا پولیس کا کام ہے اور پولیس کو یہ کام اپنی ڈیوٹی سمجھ کر کرنا چاہئے تاکہ عوام کے دل میں ان کیلئے احساس تحفظ پیدا ہو سکے اور پولیس کا وقار بھی بلند ہو سکے، پی آئی سی میں جو کچھ ہوا اس پر انسانیت بھی شرم سار ہے۔
یہ ایک حوصلہ افزاءبات ہے کہ گزشتہ روز ہائیکورٹ میں پی آئی سی پر حملہ کرنیوالے وکلاءکی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی تو فاضل ججز نے بہت اچھے ریمارکس دیئے، ایک جج کا کہنا تھا کہ وکلاءکی جرا¿ت کیسے ہوئی کہ وہ ہسپتال پر حملہ آورہوتے، فاضل جج نے ملزمان کی وکالت کرنیوالے وکلاءکو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور اپنے دل کی کیفیت بھی بتائی۔
اس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس کیس میں مثالی فیصلہ دے کر ایک تاریخ رقم کرے گی،سیف سٹیز اتھارٹی نے بھی اپنی ویڈیوز قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو فراہم کر دی ہیں جن کی مدد سے اصل مجرموں کو شناخت کرنے میں آسانی ہو گی، اس حوالے سے یہ معاملہ حکومت اور عدلیہ کیلئے ٹیسٹ کیس ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ اس ٹیسٹ میں پاس ہوتے ہیں یا فیل، کیوں کہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں اس واقعہ کے انجام پر لگی ہوئی ہیں، وکلاءنے بہرحال یہ ایسا ظلم کیا ہے کہ جس سے انسانیت شرمندہ ہے، خود سینئر وکلاءنے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ وکلاءنے تسلیم کیاکہ ان وکلاءمیں کالی بھیڑیں ہیں، ہر ادارے میں ایسے شرپسند ہوتے ہیں جو موقع کی مناسبت سے معاملات خراب کر دیتے ہیں مگر بروقت سدباب سے ان کا تدارک ممکن ہے۔
اس حوالے سے پنجاب بار، ہائیکورٹ باراور لاہور بارکے عہدیداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں چھپے ہوئے شرپسندوں کو بے نقاب کریں اور ان کیساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوسکیں۔