(مانیٹرنگ ڈیسک) حساس ادارے کے افسر پر تشدد کے مقدمے میں مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ سلمان رفیق اور حافظ نعمان کو گرفتار کر لیا گیا۔
پنجاب پولیس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق خواجہ سلمان رفیق اور حافظ نعمان کارکنوں کے ہمراہ خود گرفتاری دینے تھانہ گارڈن ٹاؤن پہنچے تھے، جس کے بعد دونوں کو دفعہ 109 کے تحت درج مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق حساس ادارے کے افسر حارث کو گزشتہ شام خواجہ سلمان اور میاں نعمان کے گارڈز نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور گاڑی کو بھی نقصان پہنچایا تھا جس پر افسر نے گارڈن ٹاؤن تھانے میں 7 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔مقدمے میں شامل 4 گارڈز کو گزشتہ شام ہی گرفتار کرلیا گیا تھا، خواجہ سلمان اور میاں حافظ نعمان کی گرفتاری کے بعد مقدمے میں گرفتار ملزمان کی تعداد چھ ہوگئی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ مقدمے کی تفتیش کے لئے سیف سٹی کے کیمروں کی فوٹیج اور موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیوز کا جائزہ لیا جا رہا ہے، گرفتار ملزمان کو تفتیش کے لئے سی آئی اے ماڈل ٹاؤن تھانے منتقل کر دیا گیا جنہیں کل ماڈل ٹاؤن کچہری میں پیش کیا جائے گا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ عمران نذیر نے مؤقف اختیار کیا کہ میں تھانے کے اندر ملاقات کا منتظر تھا کیونکہ افسران خواجہ سلمان اور حافظ نعمان سے تفتیش کررہے تھے، سلمان رفیق نے خود حلف دے کر کہا ان کو اس واقعے کا علم بعد میں ہوا، وہ دونوں خود یہاں پر آئے، ہم اُن کے خاندان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے اور گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ قانونی معاملے میں اپنا تعاون پیش کیا ہے، جب شہباز شریف وزیراعلی تھے تو ان کے داماد کو بھی جیل میں رہنا پڑا کیونکہ قانون کی حکمرانی کیلئے یہ ضروری تھا، جب ادارے اس کیس کی تفتیش کریں گے تو ہم بے گناہ ثابت ہوں گے۔
سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی ٹرولزکیجانب سےاور انکے حامی چینل پر ایک حساس ادارے کے افسر پر میری موجودگی میں میرے گارڈز کے ھاتھوں تشددکے حوالہ سے پھیلایا جانیوالا مواد بے بنیاد جھوٹ اور لغو ھے-
— Khawaja Salman Rafique (@SalmanRafiquePK) April 13, 2022
واضح رہے کہ میں بغیر گارڈز کے سفر کرتاھوں - میراایسے کسی واقعہ سے کوٸ تعلق نہ ھے-
خواجہ عمران نذیر نے کہا کہ جنہوں نے ٹرینڈ بنایا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ آج شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو وہ اپنے بندے خود گرفتار کروائیں گے مگر ہمارے رہنماؤں نے رضاکارانہ گرفتاری دی، تفتیش میں سامنے آئے گا کہ انکو واقعی ہی علم نہیں تھا اور موبائل لوکیشن سے بھی یہ چیز واضح ہو جائے گی، ہمیں اداروں اور عدلیہ پر مکمل یقین ہے۔