ملک محمد اشرف :لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ موٹروے پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، سی سی پی او لاہور عمر شیخ کمرہ عدالت میں پیش ہوئے،عدالت نے آئی جی پنجاب کو ریپ کیس کے ملزمان کو فوری گرفتاری کرنے ، گینگ ریپ واقعے کی پرسوں تک تفصیلی تحریری رپورٹ طلب کرلی ،عدالت نے آئی جی پنجاب پورے صوبے کی سڑکوں کی سکیورٹی اور دیہات کی سڑکوں پر پولیس کا روزانہ دو گھنٹے گشت کا نظام یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے کیس کی سماعت کی ، سی سی پی او عمر شیخ اور پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ملک عبدالعزیز پیش ہوئے،عدالتی حکم پر واقعہ کی تحقیقات کے لئے کمیٹی کا نوٹیفیکشن عدالت میں پیش کیاگیا،عدالتی حکم پر سرکاری وکیل نے کمیٹی بنانے کا نوٹیفیکیشن پڑھ کرسنایا اور عدالت کو آگاہ کیا کہ وزیراعلی پنجاب کی ہدایت پر کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی واقعہ کے محرکات کے بارے 3 دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں یہ نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت بنایا گیا،یہ کمیٹی کمیٹی نہیں کھیلا جاسکتا، بتائیں اس واقعے کی رپورٹ کیا ہے؟ یہ رپورٹیں ٹرائل کا حصہ ہی نہیں بن پائی، کمیٹی میں ٹیکنیکل افراد کو شامل کرنا چا ہئے تھا،ایسے افراد کو شامل کیا جاتا جو بتاتے کہ مستقبل میں کیسے ان واقعات سے بچا جاسکے، عدالت نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی بنانے کا اختیار کس کے پاس ہے قانون میں واضح ہے، ہر چیز ایک قانون کے تحت ہوتی ہے ، کمیٹی کمیٹی نہ کھیلا جا ئے ، آپ ابھی رپورٹ منگوائیں کہ کیا کیا گیا ہے، سمجھ نہیں آتی معاشرہ رول آف لا کے بغیر نہیں چل سکتا ، کابینہ فیصلہ کرتی کہ پولیس کو اب کیسے کام کرنا ہے ، کمیٹی میں ماہر لوگ شامل کیے جاتے تاکہ شفاف تفتیش ہو سکتی ، سرکاری وکیل نے کہا کہ جواب آنے کے بعد متعلقہ اتھارٹی کے پاس معاملہ بھیجا جا ئےگا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آ ئی جی پنجاب نے لکھا کہ آپ کے خلاف کاررواٸی ہو گی مگر یہ نہیں بتایا کس قانون کے تحت ہو گی ، آئی جی نے یہ نہیں بتایا کہ سی سی پی او لاہور نے کون سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے ، سرکاری وکیل نے کہا سی سی پی او کا عمل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے گونگلووں سے مٹی جھاڑی گئی ہے ، یہ ایک ایسے شخص کی رپورٹ ہے جس نے پورے صوبے میں قانون نافذ کرنا ہے ۔
سی سی پی او عمر شیخ نے کہا 9 تاریخ کو یہ واقعہ رات کو پیش آیا ، چیف جسٹس نے کہا میڈیا پر آ رہا ہے کہ جب اس خاتون نے فون کیا تو اسے کہا گیا کہ ایف ڈبلیو او سے رابطہ کریں ، ایف ڈبلیو نے کہا کہ 15 پر کال کریں سی سی پی او نے کہا کہ گر آپ ہائی ویز کو دیکھیں تو 4 قسم کی روڈ اتھارٹیز ہیں، چیف جسٹس نے سی سی ہی او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے ٹاپک تک رہیں، یہ اتھارٹیز مجھے نہ سنائیں، سی سی پی او نے کہا رنگ روڈ اتھارٹی کمشنر کے زیر انتظام ہے،بچی نے 103 پر فون کیا، ایف ڈبلیو سے کیا کانفرنس کال ہوئی، میجر صاحب نے نزدیک ترین موبائل ورکشاپ موو کروا دی، کامن سینس ہے کہ آپ 15 پر فون کرتے، ۔103 والے کو یا میجر صاحب ان چاروں کو 15 فون پر فون کرنا چاہئے تھا۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خاتون کو کیوں فون کرنا چاہئے تھا؟ یہ ذمہ داری کسی سمجھدار آدمی چلی جاتی ہے، میجر صاحب کو کیوں 15 پر فون نہیں کرنا چاہئے تھا، چیف جسٹس نے سی سی پی او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ڈولفن والوں کا کیا بیان لکھا ؟ گاڑی دیکھی، شیشہ ٹوٹا ہوا دیکھا ؟ سی سی ہی او نے کہا جی بالکل سب کچھ دیکھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈولفن نے پیچھا کرنے کی کوشش کی؟
سی سی پی او نے جواب دیا کہ ڈولفن نے ہوائی فائر کیا تو خاتون نے آواز دی کہ میں ادھر ہوں، جب کوئی نامعلوم ملزموں کا معاملہ آئے تو ہم سب سے پہلے جیو فینسنگ کی طرف جاتے ہیں، ہم نے فنگر پرنٹس کے سیمپلز بھجوا دیئے، ڈی این اے کے سیمپلز بھی بھجوا دیئے، مرکزی ملزم کا تعلق کرول کے علاقے سے ہے، ہم نے 53 بندوں کے ڈی این اے سیمپل حاصل کئے۔
سی سی پی او نے کہا کہ وقار شاہ کے بیان پر عباس نامی بندہ گرفت میں آیا ہے، وقار شاہ نے کہا کہ میں ملزم نہیں ہوں، وقار شاہ کا سیمپل ڈی این اے بھجوایا گیا ہےعابد ملہی کیخلاف 3 مقدمات جس میں 2 ڈکیتی اور ایک زنا کا مقدمہ ہے، زنا کے مقدمہ میں ملزم عابد ملہی راضی نامے پر بری ہوا ہے، چیف جسٹس نے سی سی پی او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک زنا کار جس نے دوران ڈکیتی ریپ کیا، اب لوگ صلح کر کے ملزموں کو بری کروا دیں تو عدالتیں کیا کریں۔
چیف جسٹس نے سی سی پی او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ملزموں کو پکڑیں، دہشت گردوں کو پکڑیں شواہد اکٹھے کریں اور ملزموں کو سزائیں دلوائیں، موٹر وے جیسے واقعات پر حکومتوں کو اپنی قوم سے معافی مانگی چاہئے، کسی کی بہو بیٹی سڑک پر سفر کرتے ہوئے خوف پیدا ہو گیا ہے وہ محفوظ تصور نہیں کرتیں، بڑے عہدے کے آدمی کو اپنی زبان کا استعمال بڑی احتیاط سے کرنا چاہئے، آپ کے ان فقروں کو سن کر میں خود بہت پریشان ہوا تھا۔
سی سی پی او نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہسر آپ ایک جج صاحب دے دیں، گواہوں کے منحرف ہونے سے متعلق ریسرچ ٹیم بنانے کا حکم دے دیں، ہم 6 ماہ کے اندر لاہور کی حد ریسرچ مکمل کر کے رپورٹ پیش کر دوں گا،۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گواہوں کے تحفظ کیلئے قانون بنا ہوا ہے کیا آج تک اس پر عمل ہوا؟ اگر ان سے رپورٹ منگوائی جائے تو کچھ بھی سامنے نہیں آئے گا، رات کو اکیلے سفر کرنے سے پولیس اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہے، اداروں کا آپس میں جھگڑا چل رہا ہے، لوگوں نے یہ نہیں دیکھنا،جب یہ لوگوں کی طبعیت خراب ہو جائے نہ تو یہ جج صاحب کی گاڑی کو بھی روک لیتے ہیں چاہے اسکے ساتھ سکواڈ لگا ہو، سی سی پی او آج کوئی ہو کل کوئی ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے، اداروں کے آپس میں جھگڑوں کی سزا عوام کو نہ دیں۔
سی سی پی او نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم ہمیں سزائیں دیں، سر آپ نے ہی سب کچھ ٹھیک کرنا ہے، میں نے ڈی جی خان میں پولیس والوں کو ہتھکڑیاں لگوائی ہیں،سر خدا کی قسم ہمیں سزائیں دیں۔
چیف جستس محمد قاسم خان نے کہا کہ سسٹم کو بحال کرنا ہے، تحفظ دینا حکومت کے کام ہیں، شائد ان کی اپنی ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آئی پنجاب کے زیر انتظام انٹر ڈسٹرکٹ روڈ کی تفصیلات طلب کی جائیں۔تحصیل سطح پر سڑکوں کی کیا سیکورٹی کے انتظامات کی تفصیل پیش کی جائے، روزانہ رات 2 گھنٹے آئی جی پنجاب گشت کروائیں۔
اس سے قبل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے موٹروے زیادتی کیس کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ پتا نہیں انویسٹی گیشن ہورہی ہے یا ڈرامہ بازی ہے اور سی سی پی او نے وہ جملہ بولا جس پرپوری کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے۔