بالی وڈ کا اب تک کا سب سے مہنگا ترین گانا کونسا؟

14 Oct, 2024 | 04:24 PM

Ansa Awais

ویب ڈیسک: جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

پیار کیا کوئی چوری نہیں کی

چھپ چھپ کے آہیں بھرنا کیا

1960 میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ کی فلم مغل اعظم کے اس گانے سے کون واقف نہیں۔ لتا منگیشکر نے اس گانے میں سُر بکھیرے۔نوشاد نے موسیقی ترتیب دی۔ شکیل بدایونی نے یہ گیت لکھا اور مدھو بالا نے گانے پر اس قدر شاندار رقص کیا کہ ہمیشہ کے لیے یہ امر ہوگیا۔

گانے کے لیے ایک خصوصی سیٹ تشکیل دیا گیا جو کہ قلعہ لاہور کے شیش محل سے متاثر تھا۔ فلم کا سیٹ موہن اسٹوڈیوز میں بنایا گیا تھا۔ فلم کا سیٹ 35 فٹ اونچا اور 80 فٹ چوڑا تھا۔گانے کے محل نما سیٹ کو بنانے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ اس محل نما سیٹ کے لیے جو شیشہ استعمال کیا گیا وہ بیلجیم سے منگوایا گیا تھا جس کو منگوانے میں ہی چار ماہ لگے۔ اس محل کو فیروزہ باد کے ورکرز نے تیار کیا تھا۔

میوزک کمپوزر نوشاد نے اس فلم کے لیے پندرہ سے بیس گیت تیار کیے تھے لیکن سبھی گیت استعمال نہیں ہوئے۔ہدایت کار کے آصف نے شیشوں کا سیٹ لگوایا اور اس کو اس طرح فلمایا گیا کہ شیشوں کے چھوٹے ٹکڑوں میں کردار بھی نظر آئیں ـ اس گانے کا بجٹ فلم سے بھی بڑھ گیا تھا ـ مدھو بالا، دلیپ کمار، پرتھوی راج کپور ، درگا کھوٹے اور نگار سلطانہ نے گانے میں جس دلفریب فن کے جوہر دکھائے۔

صرف اس گانے پر اُس زمانے میں ایک کروڑ روپے کا خرچا آیا ۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب ایک بڑی ہندی فلم ایک کروڑ میں بن جاتی تھی۔ آج کے حساب سے دیکھا جائے تو اس گانے پر آنے والا کُل خرچہ پچپن کروڑ روپے بنتا ہے جو اسے بالی وڈ میں اب تک کا مہنگا ترین گانا ثابت کرتا ہے۔

اس فلم کی بہت زیادہ لاگت کی وجہ سے فلم کے فنانسرز کا دیوالیہ نکلنے کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔فلم کےسیٹ  کی تعمیر کے لیے پورے بھارت سے کاریگر بھرتی کیے گئے۔فلم کے کاسٹیوم مکھن لال اینڈ کمپنی نے ڈیزائن کیے اور انھیں دہلی کے درزیوں نے جو زردوزی کشیدہ کاری میں ماہر تھے، ان مغل کاسٹیومز کو تیار کیا۔

فلم کے لیے جوتے آگرہ کے کاریگروں نے بنائے، فلم کے لیے زیورات حیدر آباد، دکن کے سناروں نے بنائے، تاج کولہاپور میں ڈیزائن کیے گئے جبکہ ہتھیار راجھستان کے لوہاروں نے بنائے۔ان ہتھیاروں میں ڈھالیں، تلواریں، نیزے، خنجر اور زرہ بکتر شامل ہیں،کاسٹیوم پر زردوزی بھی سورت، گجرات کے ڈیزائنروں کی ہی ٹانکی گئیں۔ فلم میں جودھا بائی کرشن کے جس مجسمے کی پوجا کرتی دکھائی دی وہ بھی سونے سے بنا تھا۔ 

انار کلی کو زنجیروں سے جکڑنے کے مناظر میں مدھو بالا کو اصل زنجیریں پہنائی گئیں۔

اکبر اور سلیم کی جنگ کے مناظر میں 2000 اونٹوں، 400 گھوڑوں اور 8000 سپاہیوں نے حصہ لیا۔ یہ سب بھارتی فوج کی جے پور گھوڑ سوار فوج 56 ویں رجمنٹ کا حصہ تھے۔فلم بندی کے دوران دلیپ کمار کو راجستھان کے صحرا میں شدید گرمی میں مکمل زرہ بکتر پہن کر بولنا پڑا۔مغل اعظم اپنے دور کی سپرہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دلیپ کمار، پرتھوی راج کپور اور مدھو بالا کی شاندار پرفارمنس نے اس فلم کا لازوال بنا دیا۔

5 اگست 1960ء کو ریلیز ہونے والی فلم مغل اعظم نے بھارتی فلمی تاریخ کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی۔ مغل اعظم کے پاس یہ ریکارڈ 15 سال تک رہا، جسے15 اگست 1975ء میں ریلیز ہونے فلم شعلے نے توڑا۔

مغل اعظم وہ پہلی بلیک اینڈ وائٹ فلم ہے، جسے ڈیجیٹلی رنگین کیا گیا اور کسی بھی زبان کی پہلی فلم ہے جسے رنگین بنانے کے بعد دوبارہ سینما گھروں میں بھی ریلیز کیا گیا۔ اس فلم کا رنگین ورژن نومبر 2004ء کو سینماؤں میں جاری کیا گیا جو تجارتی حوالے سے کافی کامیاب رہا۔ 

اس فلم کو اپنی نوع میں سنگ میل تصور کیا جاتا ہے۔کمائی کے حوالے سے، نقادوں سے تعریف پانے کے حوالے سے اور اس فلم میں ہر طرح سے جزیات کے بیان کے حوالے سے اس فلم کو سراہا جاتا ہے 

فلمی محققین نے اس طرح کی تاریخی فلموں کی خوش آمدید کہا ہے لیکن اس فلم میں دکھائے گئے تاریخی حقائق کے بارے میں سوالات بھی اٹھائے ہیں۔

مزیدخبریں