ویب ڈیسک: پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آتشزدگی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بلند وبالا عمارتوں میں آتشزدگی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں لیکن ان کی روک تھام کوئی اقدامات نہیں ہو رہے جو لمحہ فکریہ ہے۔
پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آتشزدگی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے کراچی اور لاہور میں بلند وبالا عمارتوں میں آتش زدگی کے واقعات غیرمعمولی طور پر بڑھ رہے ہیں خصوصاً کراچی میں ایسے واقعات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔تجارتی و رہائشی عمارتوں اور بازاروں میں آگ لگنا تو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے لیکن تشویش کا پہلو یہ ہے کہ ملک کے صوبائی، ضلع انتظامی اداروں کا آتشزدگی پر بروقت قابو نہ پاسکنا ہے۔ کراچی اور لاہور میں ڈسٹرکٹ گورمنٹس، فائر بریگیڈ اور بلدیاتی ادارے موجود ہیں، ان اداروں کے افسروں اور دیگر اسٹاف کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ٹیکس پئیرز کے پیسوں سے ان افسروں اور ملازمین کو تنخواہیں، مراعات دی جارہی ہیں لیکن بحرانی صورتحال میں ان کی کارکردگی شرمناک حد تک مایوس کن ہے۔
کراچی اور لاہور میں کثیرالمنزلہ عمارتیں اور شاپنگ مالز کی بہتات ہے۔ اکثر عمارتوں میں حفاظتی نظام موجود نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو وہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوچکا ہے۔ کئی عمارتوں کی پارکنگ ہی نہیں ہے۔ رہائشی مکانات کو کمرشل بنا دیا گیا ہے، قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے والے کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں لگنے والی خوفناک آتشزدگی کے باعث کیس پراپرٹیز کی 500 سے زائد موٹر سائیکلیں، بس، رکشے اور کئی گاڑیاں جل کر خاکستر ہو گئیں۔فائر بریگیڈ حکام کے مطابق گلشن اقبال عزیز بھٹی پارک کے قریب جھاڑیوں میں لگی آگ دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گئی اور اس نے نظارت میں موجود گاڑیوں کو بھی لپٹ میں لے لیا۔
شہر میں سیکڑوں بڑے حادثات کے بعد بھی آج تک حکومتی سطح پر کوئی ریکسیو سروس موجود نہیں ہے۔ فائر بریگیڈ اور اسنارکلز کی تعداد پاکستان کے سب سے بڑا شہر کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ فیکٹریوں کے اندر فائر سیفٹی کے فول پروف انتظامات نہیں ہیں اور جہاں ہیں، وہ بھی صرف رسمی طور پر کیے گئے ہیں۔ فائر فائٹرز کی تربیت اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے دل لاہور میں بھی بلند بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کے اقدامات نہیں ہیں، جس کے باعث وہاں بھی بلند بالا عمارتوں میں آتشزدگی واقعات معمول بن چکے ہیں۔ ان بلند بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کا شعبہ اور اخراجی راستوں سمیت عمارتوں کی چھتوں پر سپرنکلر سسٹم نہیں لگائے گئے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل آدھی رات میں لاہور کے چلڈرن اسپتال کے تیسرے فلور پر واقع میڈیسن اسٹور پر آتشدزگی کا واقعہ پیش آیا ۔ اسپتال کا تیسرا فلور مکمل طور پر میڈیسن اسٹور کے طور پر استعمال ہو رہا تھا جس میں کروڑوں مالیت کی ادویات موجود تھی۔اسی طرح خوفناک آتشزدگی نے حفیظ سنٹر میں سینکڑوں دکانوں کو جلا کر راکھ کردیا، جس سے ہزاروں خاندانوں کا ذریعہ معاش بھی ختم ہوگیا۔ یہ بدقسمت پلازہ 1992 میں شیخ کبیر اور شیخ قدیر نامی بھایئوں نے تعمیر کیا۔
سوال یہ ہے کہ بلند بالا رہائشی و کمرشل عمارتوں کی تعمیر کے موقعے پر متعلقہ سرکاری ادارے بلڈنگز لاز کی پابندی کیوں نہیں کراتے؟ ان سوالات کا جواب پنجاب کے وزیراعلیٰ اور پنجاب اسمبلی کو متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران سے پوچھنا چاہیے۔ بہرحال اگر آتشزدگی کے واقعات کی بات کی جائے تو ان کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں آگ پکڑنے والے کپڑوں کو غیر محفوظ طریقے سے اسٹورکرنا بھی شامل ہے۔
جہاں جہاں بجلی کی تاروں کو گزارنے کے لیے پائپ، گیس کے پائپ یا سلینڈر، آگ پکڑنے والی اشیا یا تیل کے ڈپو موجود ہیں وہاں حفاظتی انتظامات ضرور ہونے چاہئیں۔ سب سے پہلے جو کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ پیداوار، فروخت اور اشیا کو اسٹورکرنے کی جگہوں کے بارے میں اعداد و شمار کو مزید بہتر بنایا جائے۔ ادارہ شماریات باقاعدگی سے سروے کرے جو اس اعداد و شمار کی بنیاد بن سکے۔ ان اعداد و شمار میں اضافے اور بہتری کے لیے ایک میونسپل منصوبہ بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ کراچی، لاہور سمیت دیگرشہروں کو میں ایک شفاف شہری بلدیاتی، مقامی اور صوبائی انتظامیہ کا نظام فعال کیا جائے، جمہوری بصیرت، عمل کی طاقت اور امنگ ہی ہمیں تباہی سے بچا سکتی ہے۔