سٹی 42 : پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن سےاحتجاج کرتے ہوئے الگ ہوا ، میں اگر جوڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بینچ میں فرق پر بات کرتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے انٹرویو میں وفاقی حکومت کے لئے خطرے کی حقیقی گھنٹی بجا دی اور کہا کہ ہمیں انصاف کے سب سےبڑےادارے میں برابری کی نمائندگی چاہیے، ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے۔ بلاول بھتو نے واضح الفاظ مین بتایا کہ وفاقی حکومت نے آئین سازی کےوقت برابری کی باتیں کیں، آئین سازی کےوقت کی گئی اپنی باتوں سے حکومت بعد میں پیچھے ہٹ گئی۔
انہوں نے کہا، میں اگر جوڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بینچ میں فرق پر بات کرتا، دیہی سندھ سےسپریم کورٹ میں ججز ہوتےتو برابری کی بات کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وفاقی آئینی بینچ میں الگ سندھ کےلیےالگ طریقہ اختیار کیا گیا، سندھ کےساتھ بار بار تفریق ،الگ سلوک نظرآتاہے ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ججز کا طریقہ ہےکہ بینچ سےسیاست کریں۔
چیف جسٹس اور آئینی بینچ کےسربراہ کو غیر متنازعہ ہوناچاہیے، عوام کا سب سےزیادہ واسطہ لوئر کورٹس سےہے، وزیراعلی سندھ کو کہاہےکہ چیف جسٹس سےرجوع کریں، لوئر کورٹس میں اصلاحات کےلیےبات کریں، جب تک لوئرکورٹس میں اصخاحات نہ ہوں، ہمارا مشن نامکمل ہے۔
بلاول بھٹو کی سنجیدہ شکایات
وفاق میں مسلم لیگ نون کی حکومت کو ووٹ دے کر اکثریت عطا کرنے والے پیپلز پارٹی کے چئیرمین نے وفاقی حکومت سے اپنی سنجیدہ شکایات کے متعلق پبلک میں پہلی مرتبہ بات کرتے ہوئے کہا، کہا کہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کےساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے، طےہوا تھاکہ پی ایس ڈی پی مشاورت سےبنائی جائےگی، میں 26ویں ترمیم میں مصروف تھا، حکومت نےپیٹھ پیچھےکینالز کی منظوری دی، ہم نئےکینالز پر اتفاق نہیں کرتے، حکومت کینالز پر جو طریقہ اپنارہی ہےوہ ٹھیک نہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سمجھتاہوں اتفاق رائے کہ مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، بطور پارٹی چیئرمین ذمہ داری ہےکہ سی ای سی کو زمینی حقائق سےآگاہ کروں، پیپلزپارٹی کی سی ای سی نے حکومت میں شامل نہیں ہونا، قانون سازی پر پوری طرح سےمشاورت ہونی چاہیے، یہ عجب ہےکہ پہلےفلور پر بل آئے، اس کے بعد مجھےکاپی دی جائے۔
ناراضگی نہیں لیکن ہم دیکھیں گے کہ معاہدے پر کیا عمل ہوا
بلاول بھٹو نے کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ سیاسی استحکام آسانی سےآسکتاہے ، سیاست عزت کےلیےہوتی ہے، سیاست میں ناراضگی نہیں ہوتی، حکومت کےساتھ ناراضگی کا سوال ہی نہیں، وفاق میں نہ عزت دی جاتی ہےنہ سیاست کی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں حکومت پارٹنرز کےساتھ معاہدوں پر عمل کرتی ہے، ہم دیکھیں گےکہ معاہدےپر عمل درآمد کیاہوا۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری کی طبیعت بہتر ہے ، ان کےپاوں میں چار فریکچر ہوئے، مکمل بہتر طبیعت میں کچھ وقت لگےگا ۔
چینیوں کی سکیورٹی اور دہشتگردی؛ حکومت دعوے نہیں عمل دکھائے
چینی شہریوں کی ہلاکت پر چینی سفیر کےبیان پر بلاول بھٹو سےسوال کیا گیا، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی سختی سےمذمت کرتےہیں، چین کےشہری ہمارےنہ صرف مہمان بلکہ دوست بھی ہیں، چین ہماری معیشت اور عوام کو فائدہ پہنچاناچاہتاہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا مطالبہ ہےکہ دہشتگردی کےواقعات کا سدباب ہو ، بلوچستان سےلے کر قبائلی علاقوں تک دہشتگردی کی آگ پھیلی ہے، حکومت کی ذمہ داری ہےکہ وہ صورتحال پر ایکشن لے، عادت بن چکی ہےکہ دہشتگردی کےواقعےپر بیانات ،تعزیتی دورے ہوجاتےہیں، عوام کا مطالبہ ہےکہ حکومت باتیں نہیں عمل کرکے دکھائے، حکومت دہشتگردی کےمقابلےکےلیےکیاکررہی ہے۔
پاکستان امریکہ تعلقات بالکل اچھے نہیں؛ میری وزارت خارجہ کے دوران بھی خراب تھے
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم پاکستان کےمفاد کو مدنظر رکھتےہیں، امریکہ کی اپنی سیاست ہے، ہم امریکی سیاست میں ری پبلیکن،ڈیموکریٹس کی طرفداری نہیں کرتے، ذاتی تعلقات سیاست میں ہوتےہیں، ٹرمپ کےداماد اور بیٹی کو جانتاہوں، بی بی شہید کو بھی ٹرمپ نےکھانےپر مدعو کیاتھا، آصف علی زرداری ٹرمپ کو صدر بننےسےپہلے جانتےہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی تعلقات کی ڈپلومیسی میں اہمیت محدود ہوتی ہے، جیوپالیٹیکس کا اثر زیادہ ہوتاہے، پاکستان اور امریکہ کےتعلقات بالکل اچھےنہیں، جب وزیر خارجہ تھا اس وقت بھی امریکہ سےتعلقات زیادہ بہتر نہیں تھے، اس وقت امریکہ کےساتھ بدترتعلقات ہیں۔
انٹرنیٹ کی بندش اور متعلقہ ایشوز سے بلاول کو الگ رکھا گیا
وی پی این کی بندش اورانٹرنیٹ اسپیڈ پر بلاول بھٹو نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ اور وی پی این بندش سےمتعلق ہم سےمشاورت نہیں کی گئی، فیصلے کرنےوالوں کو وی پی این کا پتہ ہی نہیں، انٹرنیٹ وی پی این معاملے پرحکومت مشاورت کرتی تو سمجھاتے، زراعت اور ٹیکنالاجی ہی ایسے شعبےہیں جو معیشت کو سہارا دےسکتےہیں، بدقسمتی سےحکومت زراعت ٹیکنالاجی کےشعبےکو نقصان دےرہی ہے، اب زمانہ انٹرنیٹ وی پی این اور انٹرنیٹ اسپیڈ کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ سڑک پل اور عمارتیں بنائی جاتی تھیں ، اب زمانہ انٹرنیٹ اسپیڈ کا ہے، یہ کہتےہیں کہ حکومت 4 جی سروس دے رہی ہے، 4 جی انٹرنیٹ کےحوالے سے جھوٹ بولا جاتا ہے، 3 جی انٹرنیٹ سروس دی جارہی ہے، اب انٹرنیٹ اسپیڈ مزید سست کردی گئی ہے۔