تحریر،عامر رضا خان:مجھے نا کانوں پر یقین آرہا تھا جو سُن رہے تھے نا آنکھوں پہ جو دیکھ رہی تھیں، میں ششدر تھا، ڈرا ہوا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے، کیا واقعہ ایسا ہورہا ہے اور کیا جو میں دیکھ سُن رہا ہوں ایسا ہی ہے؟ کیا ہیجڑوں کے خاندان میں کسی مرد نے جنم لیا ہے یا یہ میرا کوئی واہمہ یا خیال ہے ؟ بس اسی شش وپنج میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھ رہا تھا جس میں پاکستان تحریک انصاف کے عمر ایوب بطور اپوزیشن لیڈر اظہار خیال کر رہے تھے آئین کی کاپی اُن کے ہاتھ میں تھی اور وہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ملکی تمام اداروں کو اس آئین کی پاسداری کرنا چاہیے، کوئی اس آئین سے بالا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ،ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو ریجکیٹ کرتے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک سیاسی پریس کانفرنس تھی، ان کا بیانیہ خود ہی کنفیوژن کا شکار ہے۔ سیکیورٹی ادارے سیاست میں مداخلت نہیں کر سکتے ان کی یہ پریس کانفرنس ہونی ہی نہیں چاہئے تھی ہر ایک ادارہ پاکستان کی بقا، سالمیت کے لئے اپنی حدود میں کام کرے تو پاکستان ترقی کرے گا،یہاں پر فریڈم آف سپیچ نامی چیز کم ہوتی جا رہی ہے۔صحافیوں کو روزانہ ہدایات آرہی ہوتی ہیں ، 9مئی کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے، سچائی کو سامنے آنا چاہئے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھی پبلک ہونی چاہیے۔اوجڑی کیمپ کی رپورٹ بھی پبلک ہونی چاہیے،آرمی پبلک سکول واقعہ کی رپورٹ بھی سامنے آنی چاہئے۔
اس کے بعد باری تھی وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جنہوں نے اپنے خطاب میں پہلی مرتبہ فوجی آمروں کے خلاف بزبان مجموعی ایسے اظہار خیال کیا کہ محسوس ہوتا تھا کہ ہیجڑوں کی اس اسمبلی میں پہلی مرتبہ کوئی مرد بول رہا ہے ،اپوزیشن کا اتنا شور شرابا تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن خواجہ آصف تھے کہ بولے جارہے تھے، اُنہوں نے تقریر کے شروع ہی میں کہا کہ آرٹیکل 6 لگنا چاہیے جس نے بھی آئین توڑا اس کے خلاف یہ آرٹیکل لگنا چاہیے 1958 سے لیکر آج تک پاکستان سنبھل نہیں سکا ، ایوب خان نے اس ملک میں آئین توڑنے کی روایت قائم کی، جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا اور مارشل لاء لگایا، سب سے پہلے ایوب خان کی لاش کو قبر سے نکال کر لٹکایا جائے وہ جو کر کے گیا اُس کے بعد آج تک ملک چل نہیں سکا ،خواجہ آصف کی اس بات پر اپوزیشن لیدر اور جنرل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب نے بولنے کی کوشش کی سپیکر نے روک دیا، تو شور شرابا شروع ہوگیا جس پر خواجہ آصف نے پھبتی کسی کہ ابھی تو چھوٹی سی بات کی ہے تو مرچیں لگی ہیں ،عمر ایوب نے ہر دور میں اپنی روایت بدلی ہے یہ کس پارٹی اور کس ڈکٹیٹر کے ساتھ نہیں رہے آج آئین اٹھا کر لائے ہیں، میرے والد نے اور میری پارٹی نے ضیاء الحق کا ساتھ دیا لیکن ہم نے اسی فلور پر معافی مانگی ،آج یہ کہتے ہیں کہ یہ اپنے باپ سے معافی نہیں مانگیں گے، پانچ مرتبہ تو پارٹی بدل چکے ہیں (یہاں پارٹی اضافی ہے کیونکہ خواجہ اصف نے و۔۔۔۔ یت کا لفظ استعمال کیا جو سپیکر نے حذف کردیا ) ہم مانتے ہیں۔ ہم نے جنرل ضیا کا ساتھ دیا تھاہم نے آمر کا ساتھ دینے پر ایوان سے معافی مانگی تھی، ایوب خان نے اقتدار کیلئے ملک کا دھارا بدل دیا تھا،امریکی بیانیہ کی جگہ اب لندن پلان نے لے لی ہے،بعض اپوزیشن اراکین خوف کے باعث وکیل کا یونیفارم پہن کر ایوان میں آتے ہیں تاکہ گرفتار نا ہوجائیں یہ کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں جو اس ملک میں ہر آمر کا ساتھ دیتے رہے، ان کی اگلی سیٹوں پر بیٹھا ہر شخص لیڈر ہونے کا دعویدار ہے۔ یہ جمہوریت کی بات کرتے ہے ان کے ایک ممبر شیر افضل مروت نے مجھ سے اور سپیکر سے ملاقات کی تو اسے پارٹی سے نکال دیا یہ کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔خواجہ آصف کی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کا موازنہ اگر اُن کی اُس تقریر سے کیا جائے جس میں انہوں نے "کچھ شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے " والی تقریر سے کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی کہ وہ تقریر ایک سیاسی بندے کی دوسرے سیاسی لوگوں کے خلاف تھی لیکن پہلی مرتبہ حکومت اور اپوزیشن تمام تر اختلافات کے اس ایک نقطے پر جمع ہوتے نظر آرہے ہیں کہ یہ ملک اب مزید مارشل لاء کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جمہوری روایات کو آگے بڑھایا جائے انداز تکلم دونوں طرف سے الگ الگ ہوسکتے ہیں لیکن دونوں نے جو بات کی ہے وہ ہم عوام کے لیے فائدہ مند ہے یہ صحیح ہے کہ تمام اداروں کو آئین کی حدود میں رہنا چاہیے موجودہ پاکستان میں سپریم کورٹ ، پارلیمان اور اسٹیبلشمنٹ بھی اسی خیال کی حامی ہیں ، رہی بات آرٹیکل 6 کی تو جس جس نے بھی آئین توڑا ہے وہ چاہے سویلین ہو یا فوجی ، پارلیمانی سیاستدان ہو یا جج اُس پر یہ آرٹیکل کا نفاذ ہونا چاہیے، بہت عرصے کے بعد ہیجڑا نما جمہوریت کے گھر جمہوری خیال کے بچے نے جنم لیا ہے اسے واہ واہ اور چوم چوم کر مارنے کے بجائے پھلنے پھولنے دیا جائے تو پاکستان مین بھی جمہوریت کے درخت کی جڑیں مضبوط ہوسکتی ہیں۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر