احمدمنصور: اندھا اعتبار یا اعتماد دھوکے اور فراڈ کی بنیاد ہے۔سیاست و اقتدار کی لڑائی میں بھی یہ ہی سب ہوتا، پاکستان شاید اس معاملے میں دنیا میں۔سب سے آگے ہے۔
پرکشش جذباتی نعرے، مخالفین کے خلاف جھوٹی سچی کہانیاں تراشنا، عوام کو حقیقت سے کوسوں دور کے سہانے سپنے دکھانا۔ سیاست میں یہ معمول کی بات بن چکی اور سب کو اس کا ادراک بھی ہو چکا۔
لیکن آج جس صورتحال کا سامنا پاکستانی قوم کو ہے وہ جھوٹ، فریب، فراڈ، دھوکے بازی کو اندھے اعتقاد کی آخری منزل تک لے جانا ہے، جس کا شکار عمران خان کے چاہنے والے ہو چکے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کا استعمال ترک کر چکے ہیں، ہر جائز ناجائز پر آمین۔
عمران خان سیاسی نظام کے لازمی جز اپوزیشن کو قبول نہ کرے، انہیں جیلوں میں ڈالے۔آمین
عمران خان فوج کی گود میں بیٹھ کر آئے، مخالفین کو کرش کرے۔ آمین
عمران خان مخالف میڈیا کا گلا گھونٹے۔آمین
عمران خان سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا فیکٹریاں بنائے۔آمین
عمران خان کی بلیک میلنگ سے فوج آزاد ہو تو اس پر حملہ آور ہو جائے۔ آمین
عمران خان عدلیہ سے گٹھ جوڑ کر کے مرضی کا انصاف لے۔آمین
عمران خان کی کرپشن مالی ہو،یا اخلاقی، سب جائز اور قبول۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمرانی فرقہ اب کبھی اپنے دماغ سے سوچنے کے قابل نہیں ہو گا، لیکن LUMS کے پروفیسر ڈاکٹر جواد سرور سید نے ایک عملی تجربے سے امید کی شمع روشن کی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ایم بی اے کی کلاس، جس میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت عمران خان کے فالورز کی تھی، کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو جگانے کے لیے انہیں اپنے خیالات کی روشنی کی بجائے سامنے موجود معلومات کی بنیاد پر جواب لکھنے کا کہا تو نتیجہ حیران کن تھا۔
ایک راوی کے بقول ڈاکٹر جواد سرور سلیمان داؤد بزنس سکول LUMS کے سابقہ ڈین ہیں نے اپنی ایک کہانی اس طرح بیان کی۔
"آج LUMS (BEI)میں اپنے MBA کی کلاس کے اختتام پر کلاس سے ایک حساس سوال پوچھا کہ کیا سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی جانب سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے لیے مالی اور زمین کا عطیہ قبول کرنا اخلاقی تھا؟
اپنا جواب ہاں یا نہیں میں دینا ھے اور اپنے جواب کواسلامی دائرہ کار ، افادیت پسندی اور اخلاقی ذمہ داری کے لحاظ سے لکھنا ھے۔
سوال 54 طلباء کے کلاس سے کیا، جن میں سے 80-90 فیصد طلباء عمران خان کے حامی تھے۔
میں نے اس موضوع پر اپنے ذاتی خیالات کا اظہار نہیں کیا، بلکہ طلباء کو کہا کہ جو معلومات آپ لوگوں پاس پہلے سے ھے اُسی لحاظ سے جوب لکھیں اوراگرمزید تحقیق کی ضرورت ھو تو اجازت ھے۔
طلباء کو اپنے جوابات ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعےجمع کرانے کے لیے 15 منٹ کا وقت دیا گیا۔
مجھے حیرت تب ھوئی جب 90 فیصد طلباء نے رائے ظاہر کی کہ عمران خان نے ملک ریاض سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے لیے عطیہ قبول کرنے میں غیر اخلاقی کام کیاھے۔
طلباء نے مختلف دلائل دیے جن میں
1) مفادات کا ٹکراؤ
2) عمران خان ،ان کی اہلیہ اور دوستوں کی جانب سے قومی خزانے کے خرچ پر ذاتی فائدہ اٹھانا
3) اپنے سرکاری عہدے کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کرنے کے حلف کی خلاف ورزی
4) اور اخلاقی ذمہ داری کی خلاف ورزیاں شامل تھی۔
زیادہ تر طلباء نے اس معاملے میں مفادات کے ٹکراؤ، بدعنوانی، اور عوام کے اپنے لیڈرشپ پہ اعتماد کے خاتمے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جو اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں ہو سکتے ہیں
انہوں نے شفافیت، جوابدہی، اور اخلاقی اصولوں کی پابندی کی اہمیت پر زور دیا تھا خاص طور پر عوامی شخصیات اور اداروں کے لیے جن کا مقصد اخلاقی اصولوں کو برقرار رکھنا ہے۔
اس سوال کے نتائج نے طالب علموں کی علمی اور ذہنی
صلاحیت ظاہر کی کے اپنے آپ کو ذاتی سیاسی تعصبات سے آزاد کرکے سوچنا چاہیۓاور اسکے ساتھ ساتھ BEI کورس کی افادیت کو بھی ظاہر کیا جو انکو یہ علم فراھم کر رہا ھے ۔
بطورِاستاد میرے لیے یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا"
ڈاکٹر جواد کے اس تجربے کو ویسے تو ہر معاملے پر اپلائی کر کے ہم بہتر اور حقیقت کے قریب تر نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔
لیکن عمران خان کے حامیوں کی ذہنی حالت جس نہج پر پہنچ چکی ہے، اس کے لیے یہ فارمولا اکسیر ثابت ہو سکتا۔
عمران خان کے حمایتی اپنے ذاتی خیالات، احساسات کو ایک طرف رکھ کر معلومات کی بنیاد پر نتائج اخذ کریں تو انہیں سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ عمران خان کا ہر وہ عمل غلط ہے حو انتشار کی طرف جاتا، فساد کی طرف جاتا، عوام اور فوج کو لڑانے کی طرف جاتا، ملکی نظام کو معطل کرنے کی طرف جاتا۔ بغاوت کی طرف جاتا اور شدت پسندی و دہشت گردی کی طرف چل پڑتا۔