سٹی42: "امریکہ فرسٹ" کا نعرہ لگا کر الیکشن جیتنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "دہشتگرد حماس" کے ساتھ مذاکرات کر کے امریک یاسرائیلی شہری کی رہائی اور چار امریکی اسرائیلیوں کی لاشوں کی واپسی کی ڈیل کر کے "امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیں گے" کے انتخابی نعرہ کی تفسیر پیش کر دی۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اکتوبر 1997 میں حماس کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کیا تھا، تب سے اب تک امریکہ نے حماس کو کبھی سیاسی اینٹیٹی تسلیم نہین کیا اور خود اس کے ساتھ مذاکرات کرنا تو الگ دوسرے ممالک کو بھی حماس کے ساتھ کوئی تعلق نہ کرھنے پر مجبور کیا، اب چند روز پہلے انکشاف ہوا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو ایک طرف غزہ کو حماس سے خالی کرنے کے نعرے لگا رہے تھے، دوسری طرف وہ حماس کے لیڈروں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر کے انہیں اسرائیل سے 7 اکتوبر 2023 کو اغوا کئے امریکی اسرائیلی یرغمالی کی رہائی پر قائل کر رہے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک مشیر نے گزشتہ روز اسرائیل کے دورہ کے دوران اسرائیل کے عبرانی میڈیا کو خاص طور سے بتایا تھا کہ امریکہ سارے ہی یرغمالیوں کی رہائی کے لئے حماس کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔
حماس نے ایک سرکاری بیان میں کہا ہے کہ اس نے یرغمالی فوجی ایڈن الیگزینڈر، جو کہ ایک امریکی شہری ہے، کی رہائی کی تجویز پر اتفاق کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ چار دیگر مقتول اسیروں کی لاشیں جو دہری شہریت کے حامل ہیں۔
الیگزینڈر اسرائیل کی فوج کا ایک سپاہی ہے اور اس کے پاس امریکہ کی شہریت بھی ہے۔ ایڈن الیگزینڈر 7 اکتوبر کی صبح غزہ کی پٹی کے قریب سرحد کے علاقہ میں تعینات تھا جب حماس کے ہزاروں مسلح جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل کے اس علاقہ میں چھٹی کے روز صبح سویرے حملہ کیا تو اسے حماس بھی نے یرغمال بنا لیا تھا۔
حماس نے چاروں مقتولوں کے نام نہیں بتائے ہیں۔
حماس گروپ کا کہنا ہے کہ وہ "مذاکرات شروع کرنے اور دوسرے مرحلے کے مسائل پر ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی مکمل تیاری کا اعادہ کرتا ہے جبکہ قبضے (اسرائیل) سے اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔"
اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی کی ڈیل عملاً ختم ہو چکی ہے۔ پہلے مرحلہ کے 42 دنوں کی جنگ بندی کے دوران اسرائیل کے 26 کے لگ بھگ زندہ یرغمالی دو دو تین تین کر کے رہا کئے گئے تھے، اس کے بعد باقی یرغمالیوں کے رہائی کے لئے حماس کو اسرائیل کے ساتھ نئی ڈیل کرنا تھی، اس کے لئے مذاکرات کئی ہفتے پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھے، اب دوحہ میں بالواسطہ مذاکرات شروع تو ہو چکے ہیں لیکن یہ کسی سمت میں جا نہیں رہے۔
؎اسرائیل کو یقین ہے کہ باقی ماندہ 59 یرغمالیوں میں سے کم از کم 24 اب بھی زندہ ہیں۔ ایڈن الیگزیندر بھی ان میں سے ایک ہے۔
