سٹی42: بلوچستان کے میر عبدالقدوس بزنجو نے سینیٹ کی نشست پر منتخب ہو کر آل اِن ون سیاستدان ہونے کا منفرد کام تقریباً نصف مکمل کر لیا۔
جمعرات کو بلوچستان سے ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونے والے پیپلزپارٹی کے امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو سینیٹر منتخب ہونے کسے پہلے قائم مقام گورنر بلوچستان، دو مرتبہ وزیراعلیٰ، ایک ایک بار اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔
دو وزرا اعلیٰ سے اقتدار چھینا، خود تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی
عبدالقدوس بزنجو دو بار وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ وہ دونوں مرتبہ وہ کسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس منصب تک پہنچے۔ جب وہ خود وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی جسے انہوں نے ووٹنگ میں ناکام بنا دیا۔
ملکی تاریخ میں سے کم ووٹ لینے والے امیدوار
اپنے کیرئیر کے دوران عبدالقدوس بزنجو کو ایک مرتبہ سب سے کم ووٹ لے کر رکن اسمبلی منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ان کا ریکارڈ اب تک نہیں ٹوٹ سکا۔
آواران میں امن وامان کی خراب صورتحال، شورش اور کالعدم تنظیموں کی دھمکیوں کے باعث 2013ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح پورے ملک میں سب سے کم تھی۔ عبدالقدوس بزنجو کو صرف 544 ووٹ ملےجو ملکی تاریخ میں کسی کامیاب امیدوارکو پڑنے والے سب سے کم ووٹ تھے اسی لیے جنوری 2018ء میں ان کے وزیراعلیٰ بننے پر میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف سمیت سیاسی مخالفین نے تنقید کی کہ صرف 500 ووٹ لینے والا وزیراعلیٰ بن گیا۔
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اب پارلیمانی سیاسی نظام میں صرف قومی اسمبلی کی رکنیت، سینیٹ کی چئیرمینی اور صدر مملکت کا عہدہ ہی باقی رہ گئے ہیں جن پر میر عبدالقدوس کا فائض ہونا باقی ہے۔
عبدالقدوس بزنجو نے 1974ء میں آواران کی تحصیل جھاؤ میں ایک سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد میر عبدالمجید بزنجو اور والد کے چچا میر عبدالکریم بزنجو بھی صوبے کے فعال سیاسی رہنما تھے۔
عبدالقدوس نے بلوچستان یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا ہے۔
عبدالقدوس بزنجو پہلی مرتبہ 28 سال کی عمر میں 2002ء میں آواران سے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ 2007ء تک جام کمال کے والد جام محمد یوسف کی کابینہ میں وزیر امور حیوانات رہے۔ 2013ء میں دوسری مرتبہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر آواران سے رکن بلوچستان اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر بنے۔