(محمد عمران فیاض)خاتون پر بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی،وہ رو رو کرغم سے نڈھال ہو رہی تھی،سامنے ہی چارپائی پر ایک 17 سالہ نوجوان کی لاش پڑی تھی جو اس خاتون کا بیٹا تھا، ون ویلنگ کرتے ہوئے نوجوان فٹ پاتھ سے ٹکرانے کے بعد جان کی بازی ہار گیا تھا اب اسکی ماں کا رو رو کر برا حال تھا قریب ہی نوجوان کا باپ اور دوسرے رشتے دار اور محلے داروں کا ہجوم سا لگا ہوا تھا،نوجوان جس کا نام سلیم تھا سبھی اس کی موت پر سوگوار تھے۔
میں بھی وہیں موجود تھا مجھ سے نوجوان کے ماں،باپ اور بہنوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی،یہ ہمارا محلہ تھا او ر دو گھر چھوڑ کر ساتھ ہی میرا گھرتھا،کچھ دیر یہ منظر دیکھنے کے بعد میں گھر کی جانب لوٹ گیا،اپنے کمرے میں گیا اور دروازہ بند کیا اور صوفے پر بیٹھ کر ماضی کی یادوں میں کھو گیا،یا میرے خدا یہ وہی سلیم ہے جب پیدا ہوا تھا تو اس کے ماں باپ نے پو رے محلے میں مٹھائیاں تقسیم کی تھیں،سلیم اپنی بہنوں کا اکلوتا بھا ئی تھا اور گھرمیں سب سے چھوٹا تھا،سلیم کی پیدائش پر اس کے والدین کی خوشی دیدنی تھی لیکن آج اس کی میت چارپائی پر پڑی تھی وہ اپنے والدین کی آنکھ کا تارا اور بہنو ں کا مان تھا۔یکدم باہر سے کلمہ شہادت کی آواز آئی ،میں نے ماضی کی یادوں کو جھٹکا وضو کیا اور جنازے میں شرکت کے لئے ساتھ چل پڑا۔
دربار کے احاطے میں سلیم کا جنازہ ادا کیا گیا اور بعد ازا ں اسے قریبی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا یعنی سلیم کی کہانی ختم۔
منوں مٹی تلے دفنانے کے بعد کہانی تو سلیم کی ختم ہوئی لیکن اس کے والدین اور تین بہنیں،کیا وہ ساری زندگی اسے بھلا پائیں گے،کیا وہ ماں جس نے اسے پال پوس کر جوان کیا اس قابل بنایا کہ وہ میٹرک کرنے کے بعد کالج جا سکے،پھر اس کاباپ جس نے محنت مشقت کر کے اسے پروان چڑھایا تھا سلیم اپنی ماں کی آنکھ کا تارا اور اپنے باپ کے بڑھاپے کا سہارا تھا ،ناجانے کس غلط صحبت میں پڑنے کے بعد وہ موٹر سائیکل کی ون ویلنگ کے اس خونی کھیل کے جنون میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار گیا۔
لیکن اگر اس نے جان کی بازی ہارنا ہی تھی تو اکیلا ہارتا،اپنے ماں باپ کو جیتے جی کیوں مار گیا اور سلیم سمیت وہ تمام ون ویلرز جو سڑکوں پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ناصرف اپنی بلکہ دوسروں کی جانیں بھی خطرے میں ڈالتے ہیں ان نوجوانوں کو کس نے حق دیا یہ خونی کھیل کھیلنے کا ،کیا ان کی جان پر صرف ان کا ہی حق ہے ،بیچ سڑک ،تیز رفتار ٹریفک میں جب یہ نوجوان اپنی موٹر سائیکل کا وہیل اٹھاتے ہیں تو کیا ان کاضمیر انہیں جھنجھوڑتا نہیں اگر انہیں کچھ ہو گیا تو ان کی مائیں جو دعاؤں میں انکی لمبی عمر کے لئے اللہ کے سامنے جھولی پھیلاتی ہیں جو بار بار دروازے کی چوکھٹ دیکھتی ہیں کہ میرا بیٹا ابھی تک گھر واپس کیوں نہیں لو ٹا،پھر وہ باپ جو سارا دن محنت مشقت کر کے اپنی اولاد کو پروان چڑھاتا ہے،ان ون ویلرز کو کس نے حق دیا کہ اپنے شوق کی خاطر اپنے والدین کی گود اجاڑیں،ماں،باپ کو ایسا زخم دے کر جائیں جو یقینا ساری عمر نہیں بھرتا۔
سلیم تو چلا گیا اور ناجانے سلیم جیسے کتنے ہی نوجوان اس خونی کھیل کی بھینٹ چڑ ھ چکے ہیں،آج بھی جب مجھے محلے میں سلیم کی ماں نظر آتی ہے تو اپنے بیٹے کی موت کا غم اس کی آنکھوں میں نظر آتا ہے،پھر سلیم کا باپ جس کے کاندھے اپنے بیٹے کا جنازہ اٹھا کر وقت سے پہلے ہی جھک گئے ہیں کیا وہ ساری عمر اس غم کو بھلا پائے گا۔
میرا ان نوجوانوں سے جن پر ون ویلنگ کا نشہ سوار ہے سوال ہے خدارا ہوش کے ناخن لو ،اپنا نہ سہی اپنے والدین بہن بھائیوں کا ہی خیال کرو کیونکہ تمہاری زندگی پر صرف تمہارا حق نہیں،تم اپنی ماں کی آنکھ کا تارا ہو،اپنے باپ کے بڑھاپے کی لاٹھی ہو،اپنی بہنوں کے محافظ ہو، خدارا ہوش کرو ،اپنے ضمیر کو جھنجوڑو کیونکہ اس خونی کھیل سے نہ صرف تم اپنی بلکہ دوسرے معصوم لوگوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈالتے ہو۔