قسط چھ دلیپ کمار
کیوپڈ کا تیر بن کر حسیناؤں کے دل چھلنی کرتا رہا
٭”امر“ باکس آفس پر تو ناکام رہی مگر دلیپ کی اداکاری اور نوشاد کی موسیقی کی وجہ سے یادگار ہے (اَمر1954ء)
اس کے فلم ساز و ہدایت کار محبوب خان تھے اور ساتھی فن کاروں میں مدھوبالا،نمی اور جے آنت شامل تھے۔موسیقار نوشاد نے ایک بار پھر مدھر سُروں سے اس فلم کو سنوارا۔فلم کے سدابہار گیتوں میں شامل ہیں:”تیرے صدقے صنم نہ کر کوئی غم یہ سماں یہ جہاں پھر کہاں“،”نہ شکوہ ہے نہ کوئی گلہ ہے، سلامت رہے تو میری یہ دعا ہے“،”انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے“،”کہنا ہے جو کہہ دے تجھے کس بات کا ڈر ہے“۔محبوب خان نے بالی وُڈ کو جو فلمیں دیں اس کے بل بوتے پر ان کا قد کاٹھ بہت بڑا ہے۔وہ ایک روایت کے امین ہیں جسے آج کے پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز اور اداکاروں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔اس فلم کی کہانی امرناتھ کے گرد گھومتی ہے جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہوتاہے،وہ سمجھتا ہے کہ عوامی سطح پر اخلاقیات کی خلاف ورزی ناقابل برداشت جرم ہے۔
یہ کردار دلیپ کمار نے کیا تھاجو ایک تعلیم یافتہ لڑکی انجو سے محبّت کرتا ہے مگر اس کی زندگی میں اس وقت بھونچال آجاتا ہے جب ایک طوفانی رات میں سونیا،جو ایک گورے کی بیٹی ہوتی ہے،گاؤں کے ایک لڑکے سنکت کے جبر سے بچنے کے لئے امر کے گھر پناہ لے لیتی ہے۔سونیا کا کردار نمّی اور سنکت(sankat) کاکردار جے آنت(Jayant) نے کیا تھا۔سونیا کی مست جوانی اور نزاکتیں اَمر کے دل میں جذبات کا طوفان برپا کر دیتی ہیں اورامر کو سونیا کی عزت لوٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔سونیا اپنا منہ بند رکھتی ہے مگر اس کی جسمانی کیفیت یہ بھانڈا پھوڑدیتی ہے کہ وہ ماں بننے والی ہے۔
بچے کے باپ کا نام ظاہر کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا ہے تو انجو اسے لوگوں کے ظلم وتشدد سے نجات دلاتی ہے۔امر بھی اپنے ضمیر سے جنگ آزما ہوتاہے پھر ایک دن سنکت امر پر حملہ آور ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ امر کو بچانے کی غرض سے سونیا یہ الزام اپنے سر لے لیتی ہے اور دلیپ سچ اُگل کر سونیا سے شادی کرلیتا ہے۔فلم باکس آفس پر توناکام ہوئی مگردلیپ کمارکی اداکاری اورنوشاد کے میوزک کی وجہ سے یاد رکھی گئی۔
٭”دیوداس“کے نام سے تین فلمیں بنیں مگر دلیپ کی دیوداس کا کوئی ثانی نہیں (دیوداس 1955ء)
بِمل رائے بالی وُڈ کا ایک بہت بڑا نام ہے جنہوں نے فلموں کے ذریعے اپنا لوہا منوایا اور یادگار فلموں کو تخلیق کیا۔ان فلموں میں ”دیوداس“ایک بڑا معتبر نام ہے۔اس کردار پر تین سے زیادہ فلمیں بن چکی ہیں مگر بمل رائے کی ”دیوداس“کا آج تک کوئی ثانی نہیں۔ دلیپ نے یہ کردارادا کرکے اسے زندہ جاوید بنا دیا ہے۔فلم کی کہانی ویسے تو سادہ ہے مگر اس میں کچھ ایسے نازک موڑ بھی آتے ہیں کہ دیکھنے والا سکرین سے نظرنہیں ہٹاسکتا۔”دیوداس“ایک بنگالی خاندان کا لڑکا ہوتاہے اور پاروتی ایک ذرا کم حیثیت فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔دونوں بچپن سے ایک ساتھ کھیلے کودے ہوتے ہیں پھردیوداس کو پڑھائی کی غرض سے کلکتہ کے ایک بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرا دیا جاتا ہے،پاروتی کا کردار سچتراسین(Suchitra Sen) نے کیا ہے،دیوداس جب کئی سالوں بعد تعلیم مکمل کرکے واپس لوٹتا ہے تو پاروتی کی ماں رواج کے مطابق دیوداس کے رشتے کے لئے دیوداس کی ماں سے رابطہ کرتی ہے جو اسے مسترد کر دیتی ہے اور جواز یہ ہوتاہے کہ پاروتی کے خاندان کی حیثیت کم ہے۔ اس صورتحال سے دل برداشتہ ہو کر دیوداس واپس کلکتہ آجاتا ہے۔
اسی دوران پاروتی کی شادی ایک ایسے زمیندار سے کر دی جاتی ہے جس کی پہلی بیوی مرچکی ہوتی ہے اوراس کے بچے جوان ہوتے ہیں۔کلکتہ میں دیوداس کا دوست اس کی ملاقات چندرمکھی نامی ایک طوائف سے کرواتا ہے جو اس کی دیکھ بھال کرتی ہے مگر کثرت شراب نوشی کے باعث دیوداس کی صحت مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہے اوریوں دیوداس کلکتہ چھوڑ کر پاروتی کے گھر کے باہر آکر دم توڑ دیتاہے۔فلم کی موسیقی ایس ڈی برمن نے ترتیب دی اور لازوال گانے تخلیق کئے جن میں ”آن ملو آن ملو،شام سانورے“،”اب آگے تیری مرضی“ ”جسے تو قبول کرے وہ دل کہاں سے لاؤں“اور ”او جانے والے رے“ شامل ہیں۔
٭” آزاد“میں انہوں نے ہلکا پُھلکا رول کرکے ٹریجک ہیرو کی چھاپ اُتاری ( آزاد 1955ء)
اس فلم کی کہانی کا مرکزی کردار شوبھا اور آزاد ہیں۔ یہ کردار میناکماری اور دلیپ نے کئے تھے۔اگرچہ سکرپٹ زیادہ جاندار نہیں لیکن دلیپ اس فلم میں طویل عرصہ کے بعد ایک ہلکا پھلکا کردار کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ان پر صرف غمزدہ رول کرنے کی صلاحیّت رکھنے والے اداکار کی چھاپ غلط ہے۔ یہ فلم چونکہ ایک کامیڈی ڈرامہ ہے اس لئے زیادہ وقت انسپکٹر،جو رول راج مہرہ نے کیا،اور سپاہی موتی لال،یہ رول اوم پرکاش نے کیا،سکرین پر چھائے رہتے ہیں اور ہیرو ہیروئین کے درمیان پروان چڑھتے رومانس کو فلم میں بہت کم وقت دیا گیا ہے۔شوبھا کے والد کے انتقال کے بعد چندرداس (بپن گپتا) اور شانتا (اچالاسچدیو)اسے اپنی بیٹی بنا لیتے ہیں جن کا اپنا بیٹا کمار کہیں گم ہوچکا ہوتاہے جس پر وہ بہت دُکھی ہوتے ہیں۔ وہ دونوں نہیں چاہتے کہ شوبھا سندر (پران) سے شادی کرے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکوچندرکی سب کارروائیوں کے پیچھے سُندر ہی کا ہاتھ ہے۔
ایک رات چندر کے لوگ شوبھا کو اغواء کرلیتے ہیں،وہ جب جنگل سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ڈاکوؤں کا ایک گینگ ان سے شوبھا کو رہا کروا لیتاہے جن کا لیڈر دلیپ ہی ہوتاہے جو شوبھا کو یقین دلاتا ہے کہ وہ اسے بحفاظت اس کے گھر پہنچا دے گا۔ کچھ عرصہ بعد شوبھا کو یقین ہو جاتا ہے کہ آزاد ایک نیک انسان ہے مگردُنیا کی نظروں میں وہ اب بھی مجرم ہوتاہے۔اس فلم کی موسیقی ترتیب دی تھی سی رام چندر نے اورگانوں میں شامل ہیں ”نہ بولے نہ بولے،کتنا حسین ہے موسم،جاری جاری او کاری بدریا،اپلم شپلم،کتنی جواں ہے رات،اوبلیئے،دیکھو جی بہار آئی“ اور ”مرنا بھی محبّت میں“۔
٭”مسافر“ میں ان کے کردار غمزدہ لوگوں کو ہسایا (مسافر 1957ء)
اس فلم کی کہانی تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ایک مکان پر ”کرائے کے لئے خالی ہے“ کا بورڈ لگا ہوتاہے، ایک دن ایک جوان شادی شدہ جوڑا یہ گھر کرائے پر لے لیتا ہے،جلد ہی نوبیاہتا دلہن پڑوسیوں سے تعلقات بنالیتی ہے۔ایک رات کو دونوں میاں بیوی وائلن پر ایک دُھن سُنتے ہیں تو اگلی صبح بیوی اپنی پڑوسن سے اس وائلن بجانے والے کے بارے میں دریافت کرتی ہے تواسے بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک پگلا بابو ہے۔یہ جوڑا اپنے خاندان سے علیحدہ ہو کر یہاں آبستا ہے کیونکہ خاندان والوں نے اپنی بہو کو بہو ماننے سے انکار کردیا تھا۔آخر کار ماں باپ اس جوڑے کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور ساتھ لے جاتے ہیں مگر بہو جانے سے پہلے صحن میں کچھ بیج لگاجاتی ہے۔گھر پر پھر”کرائے کے لئے خالی ہے“کا بورڈ لگ جاتا ہے۔کہانی کے دوسرے حصّے میں ایک بزرگ اپنی بہو اورچھوٹے بیٹے بھانو کیساتھ یہی گھر کرائے پر لے لیتے ہیں۔ بھانو اپنی حرکات سے کنبے کے غمزدہ لوگوں کو ہنساتا رہتا ہے۔ایک روز یہ بھی وہی وائلن کی آواز سُنتے ہیں اور پتہ کرنے پر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وائلن بجانے والا ایک پگلا بابو ہے۔
بھانو جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ نوکری کی تلاش میں بھی رہتا ہے ایک دن اس کا اپنے باپ سے جھگڑا ہوجاتا ہے اور وہ زہر پی لیتا ہے مگر زہر میں ملاوٹ ہونے کے باعث وہ بچ جاتا ہے۔آخرکار اسے ایک دوسرے شہر میں نوکری مل جاتی ہے۔بھانو کی بھابھی یہاں بچے کو جنم دیتی ہے اورصحن میں بوئے بیجوں میں سے ایک شگوفہ پھوٹ پڑتا ہے۔کہانی کے تیسرے حصّے میں گھر پر دوبارہ ”کرائے کے لئے خالی ہے“ کا بورڈ لگ جاتاہے۔اس مرتبہ ایک بیرسٹر اپنی بیوہ بہن کے ساتھ یہاں آکر رہنے لگتا ہے۔بیرسٹرکی بہن(Uma)کا ایک معذور بچہ ہوتاہے۔یہ کنبہ بھی ایک رات وائلن کی آواز سُنتا ہے اور دریافت کرنے پر انہیں بھی کسی پگلے بابو کا بتایا جاتا ہے توبچہ پگلے بابو سے ملنے کی ضد کرتا ہے جس کے باعث پگلا بابو ( دلیپ کمار) نمودار ہوتا ہے اور اوما کو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو اس سے پیار کرنے والا راجہ ہے مگر راجہ کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ اوما کو چاہتا ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ راجہ خود کینسر کی بیماری کے آخری مرحلہ میں ہے،راجہ بچے کو بتاتا ہے کہ جب آنگن میں لگے پودے پر پھول کِھلے گا تو وہ خود اپنے پاؤں پر چلنے لگے گا۔اوما راجہ کی تیمارداری میں لگ جاتی ہے مگر وہ اسے موت کے منہ میں جانے سے نہیں روک سکتی۔راجہ کی موت کے بعد بچہ چلنے لگتا ہے اورباغیچے میں لگے پودے پر پھول کِھل جاتا ہے۔ فلم کے موسیقار تھے سلِل چودھری(Salil Chowdhury) اور گانوں میں شامل تھے ”لاگی نہیں چھوٹے راما“، ”منا بڑا پیارا“اور ”مان ری میری گنگا“۔
٭”نیا دور“ میں تانگے والے کا کردار کرنے کیلئے دلیپ نے کئی دن تانگہ بانوں کیساتھ گزارے (نیا دور 1957ء)
اس فلم کی کہانی تقسیم ہند سے پہلے کی ہے جب صنعتوں کا دور(Industrial Revolution) شروع ہو رہا تھا۔فلم کی کہانی تانگے بانوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہےِ۔یہ وہی فلم ہے جس میں تانگے بان کا کردار کرنے کے لئے دلیپ کمار نے کئی دن تانگے والوں کے رہائشی علاقے میں گزارے تاکہ وہ اپنی جسمانی حرکات و سکنات کو ان کے ڈھانچے میں ڈھال سکیں اور دلیپ نے یہ کردار کرکے اسے لازوال بنا دیا۔کہانی کچھ یوں ہے کہ علاقے کا زمیندار(جیون) شہرمیں بس چلانے کا فیصلہ کرتا ہے جس سے تانگے والوں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے،وہ بس کا کرایہ بہت ہی کم رکھتا ہے تاکہ تانگے والوں کو شہربدر کرسکے اور بعد میں اپنی مرضی کا کرایہ وصول کرکے منافع کماسکے۔ دلیپ کمار جیون سے اس منصوبے پر شدید احتجاج کرتا ہے،جیون اسے مشورہ دیتا ہے کہ فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ سہولت بس سروس میں زیادہ ہے یا تانگہ بانی میں اور اگر تانگہ جیت گیا تو بس سروس بند کر دی جائے گی۔
سب کومعلوم تھاکہ بس اور تانگہ میں کوئی مقابلہ نہیں مگردلیپ کمار نے یہ چیلنج قبول کرکے سب کو حیران کردیا،اس کا سب سے بڑا جواز یہ تھا کہ اگر بس جیت گئی تو تانگے والے فاقوں کا شکار ہو جائیں گے اوراس ریس کے ذریعے کم ازکم ایک موقع تو موجود ہے۔دوسرے تانگے والے اس سے متفق نہ تھے اورآخر کاردلیپ اپنی محبوبہ وجنتی مالا کے ساتھ تنہا رہ جاتا ہے۔ بی آر چوپڑہ فلم کے پروڈیوسر بھی ہیں اور ہدایت کار بھی اورمدھر سُریں ترتیب دیں او پی نیّر نے۔اس کے گانوں میں شامل ہیں ”آنا ہے تو آ“،”مانگ کے ساتھ تمہارا میں نے مانگ لیا سنسار“،”ساتھی ساتھ نبھانا“،”اِک دیوانہ آتے جاتے ہم سے چھیڑ کرے“۔
جاری۔۔۔۔