ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ٹارزن کی واپسی اور پنجاب کی سیاست

ٹارزن کی واپسی اور پنجاب کی سیاست
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

عامر رضا خان: جنگل میں شور برپا ہے کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، ہاتھی سونڈھ اٹھا کر چنگھاڑتا ہے تو شیر سینہ تان کر للکار رہا ہے، بندر اپنی دھن میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگا رہا ہے، جنگلی گدھے اپنی اپنی آواز میں ڈکار رہے ہیں۔ گھوڑے ان دیکھی سواری کے انتظار میں ہنہنا رہے ہیں، پرندوں میں عجب سی ہیجانی کفیت طاری ہے، کچھ خوشی میں چہچہا رہے ہیں تو کچھ خوف کی کیفیت میں کراہ رہے ہیں اور یوں ایک بے ہنگم سا شور جنگل میں چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔

 شور ابھی تھما نہیں کہ گوریلا نے اونچی چٹان پر اپنے سینے پر دو ہتھر مار اونچی آواز میں اعلان کیا کہ تھا جس کا انتطار وہ شاہکار آرہا ہے جنگل پہ راج کرنے ایک بار پھر ٹارزن آرہا ہے، گوریلا کے اعلان سے کچھ جانور خوشی سے جھوم اُٹھے اور کچھ سہم گئے۔ شریر ٹائیگر شیرو نے اپنے ہمنوا گیدڑ، لگڑبگڑ اور سانپ بچھو کو ساتھ لیا۔

 وہ جنگل سے پار پہاڑ کی غاروں میں پناہ لینے جارہا ہے تاکہ ٹارزن کی واپسی کے بعد نئی حکمت عملی سے میدان میں اترا جاسکے، ٹارزن کی عدم موجودگی میں یہ شیرو جنگل کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا وہ کنگ تو نہیں تھا لیکن کنگ میکر ضرور تھا۔

 اس کی شہ پر تمام انتظامی امور بوڑھی لومڑی ادا کرتی تھی اور اب اس دور ناگہانی عذاب الہیٰ کاخاتمہ ہونے والا تھا۔ ہر کوئی چہ میگوئیاں کرنے میں مصروف نظر آیا کہ کب ٹارزن واپس آئے گا؟ کیا یہ خبر بھی ماضی کی خبروں کی طرح غلط ثابت تو نہ ہوگی؟ کب ٹارزن ایک حسینہ کے ساتھ قدیم درختوں کی لٹکتی بیرونی جڑوں کو پکڑے ہوا کے دوش پر جنگل میں پہنچے گا؟

 ہم میں سے کون ہوگا جس نے اپنے بچپن میں ٹارزن کی کہانی نہ پڑھی ہو یہ بچوں کا ایسا فکشن تھا کہ اس کہانی کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں ہوا اور جب بھی کسی نے کسی نئے انداز میں اسے دوبارہ لکھا اور چھاپا تو اُس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنائے۔ اس کی ضمنی کہانیوں میں سب سے زیادہ مقبول کہانی ’ٹارزن کی واپسی‘ تھی اور ہوتی بھی کیوں نا کہ ٹارزن کے جنگل سے نکل جانے کے بعد جنگل پر ایسے جانوروں کا قبضہ ہوگیا جو نہ جنگل کیلئے بہتر تھے اور نہ جانوروں کیلئے۔ اس لیے سب ٹارزن کے سنہری دور کو یاد کرتے اور لگڑ بگڑ بمعہ بوڑھی لومڑی کے ظلم پر سسکیاں اور آہیں بھرتے ٹارزن کی واپسی کا انتظار کرتے۔

 یہ تو کہانی تھی جو میں نے بیان کردی ٹارزن کی واپسی کب ہوئی اور جنگل دوبارہ آباد ہوا یا نہیں یہ آگے چل کر بتائیں گے۔ فی الحال بات کر لیتے ہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی کہ جس کی سیاست بھی آجکل کسی کی واپسی کی منتظر ہے۔

 پنجاب میں اس وقت اسمبلیاں تحلیل کرنے کا شور وغوغا ہے۔ ہر کوئی اس بات پر بحث کر رہا ہے کہ اب پنجاب کا مستقبل کیا ہوگا؟ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہیٰ اسمبلی تحلیل کرچکے۔ رسمی گورنری دستخط بھی آج ہوجائیں گے۔ پنجاب میں اب جنگل والا سماں ہے۔ آج کے ایم پی اے سابق ہونے جا رہے ہیں، وہ پارٹی غلامی جسے پٹکے اور ٹکٹ کی بنیاد پر مسلط کیا گیا ختم ہونے کو ہے۔

 جنوبی پنجاب میں نئی سیاسی صف بندی کی تیاری کی جارہی ہے، پنجاب میں عمرانی راج بزریعہ پرویز الہیٰ سرکار اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے، کپتان نئی حکمت عملی کیلئے پنجاب سے باہر شمال کی بلند چوٹیوں کا رخ کرنے والا ہے۔ اُن کے حواری بھی اُن کے ساتھ چلے جائیں گے، نئے سرے سے مقدمات کا سامنا ہوگا، سیکیورٹی رسک تو پہلے سے بڑھ جائے گا لیکن سیکیورٹی انتظامات پہلے سے نہ رہیں گے۔

 یہ ٹھاٹھ باٹھ نہ رہے تو پنجاب میں بیٹھنے کا مزا بھی ختم ہوجائے گا۔ ممکنہ گرفتاری سے بچنے کا بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ دور نکلا جائے، پارٹی کے اندر اب دھیمے نہیں ذرا بلند آواز میں نئے سربراہ کے ممکنہ امیدواروں کی بات کی جانے لگی ہے۔ بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی یا ملتان کے پیر شاہ محمود قریشی کی بات کُھل رہی ہے کہ خطرہ بڑھ رہا ہے گرفتاری کا یا خواری کا لیکن خطرہ تو ہے اور ایسے میں پنجاب کے ٹارزن کی واپسی۔

 جی ہاں نوازشریف پنجاب کی سیاست کے پہلے اور ابھی تک کے واحد سیاسی ٹارزن ہیں جس نے ایک بار نہیں کئی بار اس کے سیاسی جنگل میں اس کی اسٹیبلشمنٹ کو للکارہ۔ جلا وطنی قبول کی لیکن گُھٹنے نہیں ٹیکے اور اب اس کی واپسی کا اعلان بھی ہوا چاہتا ہے کہ پنجاب میں سیاست کیلئے مسلم لیگ ن کے پاس کوئی دوسری آپشن ہی موجود نہیں ہے۔

 رانا ثناءاللہ واپسی کا عندیہ سینہ ٹھوک کر دے چکے ہیں۔ الیکشن کا بگل بجنے اور نگران حکومت کا ڈھول پیٹنے کی دیر ہے کہ یہ سیاسی ٹارزن بمعہ اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ ہوا کے دوش پر پنجاب میں اُترے گا اور پھر سیاسی ماحول میں وہ گرما گرمی اور گہما گہمی پیدا ہوگی کہ سب دیکھتے رہ جائیں گے اور اگر اب کے بھی ٹارزن کی واپسی مؤخر ہوئی تو مسلم لیگ ن کی سیاست کو پنجاب کے سیاسی جنگل سے خاتمہ ہی سمجھئیے۔

 کہانی ’ٹارزن کی واپسی‘ کے ایک باب میں جب شیرو، لگڑ بگڑ اور بوڑھی لومڑی کو پتہ چلتا ہے کہ ٹارزن واپس نہیں آرہا، گوریلا نے بلف کھیلا ہے تو وہ پہاڑ سے اتر کر دوبارہ جنگل پہ قبضے کا پلان بناتے ہیں، ٹارزن آیا یا نہیں، شیرو کا جنگل پہ قبضہ ہوا یا نہیں، اس کیلئے ہمیں ٹارزن کی واپسی کے ناول کے اگلے حصے کا انتظار کرنا ہوگا۔

Abdullah Nadeem

کنٹینٹ رائٹر