ویب ڈیسک: کرناٹک میں حجاب تنازع ابھی تک آن ہے۔۔ تعلیمی اداروں کے باہر والدین اور اسکول انتظامیہ میں حجاب کے مسئلے پربحث و تکرار جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق چار دن اسکول بند رہنے کے بعد جب سوموار کو دوبارہ کھلے تو کچھ لڑکیاں یونیفارم کے ساتھ حجاب پہن کر آئیں۔ مگر انہیں سکول کے دروازے پر ہی روک دیا گیا۔ اس دوران بعض مقامات پر بچیوں کے والدین اور اسکول ٹیچرز میں تکرار ہوتی رہی۔ والدین کا موقف تھا کہ بچیاں کلاس رومز میں جاکر حجاب اتار دیں گی۔ تاہم اسکول انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی جس پر کئی والدین اپنی بچیوں کو واپس لے گئے تو کئیوں نے حجاب اتروا کربچیوں کو اسکول بھیج دیا۔
#WATCH | K'taka: Argument b/w parents & a teacher outside Rotary School in Mandya as she asked students to take off hijab before entering campus
— ANI (@ANI) February 14, 2022
A parent says,"Requesting to allow students in classroom, hijab can be taken off after that but they're not allowing entry with hijab" pic.twitter.com/0VS57tpAw0
طالبہ کے ساتھ ساتھ سکول انتظامیہ کی جانب سے مسلم خواتین ٹیچز کو بھی حجاب سے پہننے سے منع کیا جارہا ہے۔ خاتون اساتذہ کا لباس طالبات کے یونیفارم کا حصہ نہیں ہے لیکن ہندو انتہا پسند اور سکول انتظامیہ انہیں بھی حجاب کے ساتھ سکول میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔
Muslims teachers are forced to remove their hijab in public before entering school . The #BanHijab wasn't about uniform as teachers aren't bound to uniform. #India is oppressing Muslims, their is no freedom of religion in #India .
— Zeitung (@Himat75) February 14, 2022
A shameful day for humanity . #SaveIndianMuslim pic.twitter.com/1CMUkVa7RE
یاد رہے کہ حجاب کے ایشو کا آغاز کرناٹک کے علاقے اڈپی سے ہوا تھا۔ وہیں جب پری یونیورسٹی کالج کی 6 لڑکیوں کو انسٹی ٹیوٹ کی یونیفارم کے ساتھ حجاب پہن کر کلاس میں نہیں بیٹھنے دیا گیا تو انہوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ تک وہ ہر روز حجاب پہن کر انسٹی ٹیوٹ آتی رہیں۔ لیکن انہیں کالج داخل نہیں ہونے دیا گیا جس پر رفتہ رفتہ ان کا یہ احتجاج پورے بھارت میں بحث کی وجہ بن گیا۔ بات جب زیادہ بڑھی تو کرناٹک حکومت نے 9 فروری کو 10ویں جماعت تک کے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
دوسری طرف کرناٹک کے وزیراعلیٰ بسواراج بومئی نے گڑبڑ پیدا کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اڈپی میں تعلیمی اداروں کے ارد گرد دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ چار سے زائد افراد لوگ جمع نہیں ہوسکیں گے ۔دوسری جانب کرناٹک ہائی کورٹنے مذہبی علامات جیسے کہ حجاب، زعفرانی دوپٹہ وغیرہ والے لباس کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی ہے۔