دلیپ کمار کی زندگی پر ایک نظر۔۔۔سلیم بخاری

14 Feb, 2021 | 06:38 PM

Arslan Sheikh

پہلی قسط

دلیپ کمار۔۔۔۔دیومالائی اداکار
ہندی فلموں کی تاریخ کاسب سے قدآور فن کار

٭صف اوّل کی تمام بھارتی اداکارائیں عہدِ شباب میں دلیپ کمار سے محبّت کا دم بھرتی رہیں 
  ٹریجڈی کِنگ دلیپ کمار صرف ایک اداکار ہی نہیں بلکہ انہوں نے اداکاری میں کئی نئی جہتوں کو تخلیق کیا۔رومانس کی دُنیا میں ان کی مثال وہی ہے”جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے“ان کے عہدِ شباب میں اس وقت کی کون سی بڑی اداکارہ تھی جو ان پر فریفتہ نہیں تھی۔ وہ کامنی کوشل ہو یا مدھوبالا،نرگس ہو یا مینا کماری، نمی ہو یا شیاما، وحیدہ رحمان ہو یا وجنتی مالا وہ کون تھی جس نے دلیپ صاحب سے محبت کا دم نہ بھرا ہو۔یہ الگ بات ہے کہ خود ان کی نظر انتخاب سائرہ بانو پر پڑی اور وہ شریکِ حیات کی حیثیت سے آج بھی ان کے ہمقدم ہے۔ دلیپ کمار کو اگر رومانس کا شہنشاہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔  

٭دلیپ سے بڑا فن کار کوئی ہے ہی نہیں‘ امیتابھ بچن‘جیہ بچن 
  بڑے بڑے نامور بھارتی فنکار دلیپ کی ذات اور ان کے فن کے بارے کیا کیا کہا؟ امیتابھ بچن اور جیہ بچن کہتی ہیں کہ دلیپ سے بڑا فن کار کوئی ہے ہی نہیں۔کِنگ خان شاہ رُخ خان کاکہناہے کہ دلیپ کی نقل کوئی کر ہی نہیں سکتا جبکہ میرے جیسا بے وقوف یہ کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے۔اس بات پر تو بالی وُڈ کے بڑوں کا ایک عرصہ سے اتفاق رائے چلا آ رہا ہے کہ ہندی فلموں کی تاریخ میں دلیپ کے قد کاٹھ کا کوئی ایکٹر تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ 

٭گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق وہ سب سے زیادہ اعزازات اور انعامات حاصل کرنےوالے اداکار ہیں 
  دلیپ کمار کی شہرت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں کس کس نوعیت کے اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ وہ گینز بک آف ریکارڈز کے مطابق سب سے زیادہ انعامات اور اعزازات اپنے نام کرنے والے اداکار ہیں۔ انہیں فلم فیئر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، انہیں اعزازی طور پر بمبئی کا شیرف مقرر کیا گیا۔ بھارتی حکومت نے بھی ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر انہیں پدمابھوشن ایوارڈ سے نوازا جو بھارت کاتیسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں دادا صاحب پالکے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ آندرا پردیش کی حکومت نے انہیں این ٹی آر نیشنل ایوارڈ دیا۔ پاکستان کی حکومت نے انہیں ہلال امتیاز سے نوازا جو سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے،پھر انہیں سی این این،آئی بی این نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ تفویض کیا۔ 

٭جو اداکارہ ان کی بہن‘بھابھی یا ماں کاکردارکرلیتی اس کے بالمقابل وہ رومانوی کردار نہیں کرتے تھے 
 ان کی ایک باکمال خوبی یہ تھی کہ جو اداکارائیں ان کے بالمقابل بہن،بھابھی یا ماں کا رول کر لیتی تھیں تو پھر وہ کبھی ان کے مقابل کوئی رومانوی رول نہیں کرتے تھے۔ یوں بہت سی فلمیں ان کے ہاتھ سے جاتی رہیں مگر انہوں نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی تو ثابت یہ ہوا کہ اداکاری ان کا پیشہ نہیں بلکہ جذبہ شوق تھا اور وہ صرف پیسوں کی خاطر اپنے جذبات کا سودا نہیں کرتے تھے۔ 

٭اداکاری ان کا شوق تھا‘کبھی پیسوں کی خاطر اپنے جذبات کا سودا نہیں کیا 
  یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ 1944ءمیں بننے والی فلم”جوار بھاٹا“ دلیپ کی پہلی فلم تھی مگر یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس ہیرے کو ڈھونڈا مسز دیویکارانی نے تھا۔خود دلیپ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا:”میرا مسز دیویکارانی سے بمبئی ٹاکیز سٹوڈیو میں ایک فیملی فرینڈنے تعارف کرایا جو مجھے نوکری دلوانے میں میری مدد کر رہا تھا۔ دیویکارانی سے پہلے میں کبھی نہیں ملا تھا۔انہوں نے 1250 روپے ماہوار تنخواہ پر مجھے بحیثیت اداکار ملازمت کی پیشکش کی۔ میں یہ سمجھا کہ یہ تنخواہ سالانہ ہے کیونکہ اتنی رقم ماہانہ کمانا ناقابل یقین تھالہٰذا میں نے اپنے دوست ڈاکٹر مسانی سے کہا کہ وہ دیویکارانی سے تصدیق کر لے کہ میں نے جو سُنا ہے وہ درست ہے۔دیویکارانی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس شخص میں وہ ٹیلنٹ نظر آتا ہے جو ایک کامیاب اداکار میں ہونا ضروری ہے اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی۔

 ٭”مدرانڈیا“ میں نرگس کے بیٹے کا کردار اس لئے نہیں کیا کہ وہ ان کے بالمقابل فلموں میں رومانوی کردار کر چکے تھے 
  دلیپ صاحب بڑے اداکار توتھے ہی مگر یوں لگتا ہے کہ وہ فلموں میں اپنے رول کے متعلق بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ فلم”مدر انڈیا“ میں انہوں نے نرگس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔”انڈیا ٹو ڈے“ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ فلم باکس آفس پر انتہائی کامیاب رہی تھی بلکہ اس نے کامیابی کی ایک تاریخ رقم کی تھی۔اس فلم میں کام نہ کرنے کی دلیپ صاحب کے پاس اپنی وجوہات تھیں۔

رپورٹ کے مطابق دلیپ کمار نے کہا ”جب محبوب صاحب نے 1950ءکی دہائی میں فلم”مدر انڈیا“ کے حوالے سے مجھ سے بات کی تو مجھے لگا کہ فلم کا تصور بہت اعلیٰ اور وقت کی ضرورت ہے اور یہ فلم ضرور بننی چاہئے۔ میرا رول اس فلم میںنرگس کے بیٹے کا تھا اور مجھے اس پر سخت اعتراض تھا،میں یہ کردار کیسے کر سکتا تھاکیونکہ میں نے تو نرگس کے ساتھ فلم ”میلہ“1948ءاور”بابل“1950ءمیں رومانوی کردار کئے تھے ۔لہٰذا میں نے یہ آفر مسترد کر دی۔“

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزیدخبریں