ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جسٹس مندوخیل کا جسٹس منصور کو خط، تجاویز پر غور کی یقین دہانی

Justice Jamal Mandokhel, Justice Mansoor Ali Shah, Judicial Commission, Judges selection process, Independence of Judiciary, city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری: جسٹس جمال خان مندوخیل کا جسٹس منصور علی شاہ کو جوابی خط  میں لکھا ہے کہ  آپ نے لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے ایڈیشنل ججز کے نام تجویز کیے ہیں، آپ کو جوڈیشل کمیشن رولز منظور ہونے کے بعد نام دینے چاہئیں تاکہ بہتر تقرریاں ہوسکیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے جو سپریم کورٹ کے سینئیر موسٹ جج ہیں جسٹس جمال مندوخیل کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے  کئی نکات کے ساتھ یہ بھی کہا کہ جوڈیشل کمیشن مین تو ایگزیکٹو  کا پس منظر رکھنے والے ارکان کو  عددی اکثریت حاصل ہے،  غیر جج ارکان مل کر عدلیہ میں سیاسی تقرریاں کر سکتے ہیں۔ جسٹس منصور نے ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ججوں کے تقرر کے لئے کچھ نام بھی تجویز کئے تھے۔ 

جسٹس منصور کے خط کے جواب میں ،جسٹس جمال مندوخیل نے آج  سامنے آنے والےاپنے خط میں لکھا، " 26ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے. کمیشن نے چیف جسٹس کو رولز بنانے کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کا اختیار دیا۔ چیف جسٹس نے رولز بنانے کیلئے میری سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کے دو اجلاس پہلے ہی ہوچکے ہیں۔"

جسٹس مندوخیل نے جوابی خط میں لکھا، "آپ کی تجویز کردہ سفارشات پہلے ہی ڈرافٹ میں شامل کی جا چکی ہیں۔ مجوزہ ڈرافٹ میں آپ کے خط سے پہلے ہی آپ سے شیئر کر چکا ہوں."

جسٹس جمال مندوخیل نے لکھا، " آپ نے لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے ایڈیشنل ججز کے نام تجویز کیے ہیں، آپ کو جوڈیشل کمیشن رولز منظور ہونے کے بعد نام دینے چاہئیں تاکہ بہتر تقرریاں ہوسکیں. آپ کی تجاویز پہلے بھی زیر غور لائے اور کل کے خط والی بھی دیکھیں گے. آئندہ بھی آپ اپنی تجاویز رولز کمیٹی کو دے سکتے ہیں."

 جسٹس جمال مندوخیل نے لکھا، " 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں بھی آپ نے بات کی، ترمیم سے متعلق جواب نہیں دوں گا کیوں کہ اس کیخلاف درخواستیں زیر التوا ہیں."

جسٹس منصور کا  12 دسمبر کا خط

سپریم کورٹ کے  سینئیر موسٹ جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیئرمین رولز کمیٹی جسٹس جمال خان مندو خیل کو  12 دسمبر کو خط لکھا جو میڈیا کو بھی لیک ہو گیا، اس خط میں  جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا  کہ پاکستان کی آئینی عدالتوں میں ججز کی تقرری سے متعلق رولز تشکیل دینا انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ججز کی تقرری کیلئے رولز کی تشکیل عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کیلئے ناگزیر ہے، آئین کا آرٹیکل 175 اے جوڈیشل کمیشن کو رولز تشکیل دینے کا اختیار دیتا ہے جن میں ججز تقرری کیلئے رولز بنانا بھی شامل ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ رولز کے بغیر ججز تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کے تمام اقدامات غیر آئینی ہوں گے، عدلیہ کو پاکستان میں ہمیشہ سے ججز کی تقرری کا اختیار رہا ہے تاہم 26 ویں آئینی ترمیم نے ججز تقرری سے متعلق اختیارات کے توازن کو بگاڑ دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج کا مزید کہنا تھاکہ 26 ویں آئینی ترمیم نے جوڈیشل کمیشن میں ایگزیکٹو کو اکثریت فراہم کردی ہے، جوڈیشل کمیشن کی اس تشکیل نو سے عدلیہ میں سیاسی تعیناتیوں کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

شفاف رولز کے بغیر تعیناتیوں سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد متاثر ہو گا، عدلیہ کی آزادی بھی متاثر ہوگی، ججز کی تعیناتیاں مضبوط استدلال کی بنیاد پر ہونی چاہیئں، نہ کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر۔

جسٹس منسور نے لکھا، ہمیں ججوں کے تقرر کیلئے سوچ بچار کے بعد رولز تشکیل دینے کی ضرورت ہے، ایسے رولز بنائے جائیں جو عدلیہ کی آزادی اور میرٹ کی بنیاد پر ججز کی تقرریاں یقینی بنا سکیں، رولز تشکیل دینے والی کمیٹی سے کہتا ہوں کہ ایسے ججز کی تعیناتی یقینی بنائیں جو قانون کی حکمرانی کی پاسداری کریں۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں ججز تقرری رولز سے متعلق اپنی تجاویز بھی شامل کیں۔ آج جسٹس مندوخیل نے اپنے خط میں حوالہ دیا کہ رولز تو جسٹس منصور کا خط موصول ہونے سے پہلے ہی بن چکے تھے اور انہوں نے اس حوالے سے آگاہ بھی کر دیا تھا کہ رولز  ڈرافٹ ہو چکے ہیں۔  رولز بنانے کے لئے جوڈیشل کمیشن نے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے دو اجلاس ہو چکے ہیں، اس کمیٹی کے رولز کا درافٹ جسٹس مندوخیل نے بتایا کہ وہ شئیر کر چکے ہیں۔  جسٹس مندوخیل نے اپنے خط میں یہ یقین دلایا کہ جسٹس منصور کی رولز سے متعلق تجاویز کو جوڈیشل کمیشن مین رولز کی منظوری کے لئے پیش کئے جانے کے وقت زیر غور لایا جائے گا۔