سٹی 42 :"کیا کہا عشق جاودانی ہے! آخری بار مل رہی ہو کیا",سادگی کے ساتھ دشوار خیالات کو مصرعہ کی بندش میں باندھ ڈالنے کے بے مثل فنکار جون ایلیا آج ہوتے تو 93 سال کے ہوتے اور یقیناً آج بھی اپنے چلبلے خیالات سے لے کر دشوار افکار تک سب کچھ کمالِ سادگی سے اپنے تیر و نشتر جیسے مصرعوں میں باندھ کر ہمیں ان سے گھائل کر رہے ہوتے۔
شاعر جون ایلیاء کو پرھنے اور چاہنے والے آج اپنے پسندیدہ شاعر کی 93 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔
جون ایلیاء کا اصل نام سید جون اصغر تھا، جون 14 دسمبر 1931ء کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ شفیق حسن ایلیاء اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے جبکہ اردو کے نامور دانشور سید محمد تقی اور معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔
جون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلا شعر صرف 8 سال کی عمر میں کہا اور پھر عمر بھر سخن وری کرتے رہے۔نوجوان نسل کے پسندیدہ شاعر جون ایلیاء کو ان کے انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ء میں انہیں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی عطاء کیا تھا۔
جون ایلیاء کے شعری مجموعے ’شاید‘، ’یعنی‘، ’لیکن‘، ’گمان‘ اور ’گویا‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ ایلیا کے سینکڑوں شعر اور اتنے ہی مصرعے ہر عمر کے قدردانوں کی نوکِ زباں پر اب بھی ہیں اور یقیناً تا دیر رہیں گے کیونکہ اردو زبان کو ایلیا جیسا قادر الکلام، مشکل افکار اور آسان پیرایہِ اظہار کا مشاق فنکار اب شاید و باید ہی مل پائے گا۔
جون 8 نومبر 2002ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے، انہیں کراچی میں واقع سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔