یہ کوئی ہوائی یا سوشل میڈیائی بات نہیں ہے حقیقت ہے کہ حکومت نے گیس اور بجلی کی قیمتوں کو کم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ قیمتیں کیوں ؟ کم ہوں گی اور اس کے پیچھے کون کون کار فرما ہے یہی میرا آج کا موضوع ہے جس پر بات کرنا ہے سب سے پہلے بات کرتے ہیں گیس کی کہ سردیوں میں لوگ بجلی بھول کر گیس کے بلز کا رونا روتے نظر آتے ہیں حکومت کا موقف بھی یہی رہا ہے کہ 1950کی دہائی میں گیس دریافت ہوئی جو آج تک استعمال میں ہے لیکن اب یہ ذخائر آہستہ آستہ ختم ہوتے جارہے ہیں ،پاکستان جس جغرافیائی خطے میں واقع ہے یہ خطہ تیل کا نہیں گیس کا خطہ ہے لیکن بد قسمتی سے تمام فوجی اور سول حکومتوں نے سوئی گیس کی فراہمی کو اپنے لیے نعمت متبرکہ سمجھ کر استعمال تو کیا لیکن نئے ذخائر دریافت ہی نا کیے جس کا نتیجہ آج ہم مہنگی گیس اور گیس لوڈ شیڈنگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں لیکن اب خوشخبری یہ ہے کہ حکومت نے باضابطہ اعلان کر دیا ہے کہ سندھ کے علاقے ڈھرکی میں گیس کے وسیع ذخائر ملے ہیں۔
ماڑی گیس فیلڈ کے کنوئیں شوال ون سے یہ گیس ملی ہے جہاں سے روزانہ 25 لاکھ مکعب فٹ گیس نکالی جائے گی اس منصوبے کا آغاز ٹھیک ایک سال قبل جنوری 2024 میں کیا گیا تھا اور حیران کُن حد تک ایک سال میں ہی گیس اور خام تیل کے ذخائر مل گئے جی ہاں صرف ایک سال میں یہ ماڑی پیٹرولیم کے ماہرین ارضیات کا ایک بڑا کارنامہ ہے ،شول ون سے یومیہ 1040 بیرل خام تیل بھی نکالا جائے گا سوچنے پر لگتا ہے کہ یہ مجموعی ملکی ضروریات میں آٹے سے نمک کے برابر مقدار ہے کہ پاکستان میں تیل کی کھپت روزانہ پانچ لاکھ 56 ہزار بیرل ہے لیکن یہ صرف ایک کنوئیں سے اضافی ملنے والا خام تیل ہے اصل میں تو یہ گیس فیلڈ ہے اور یہ شوال ون ہے اس کے علاوہ ماڑی پیٹرولیم کے ارضیاتی ماہرین شوال ٹو اور مختلف بلاکس پر بھی کام کر رہے ہیں جن میں سجاول بلاک ، کرک بلاک ، غوری بلاک ، سکھر بلاک ، زیارت اور ہڑنائی بلاک ، پشاور ایسٹ اور بنوں ویسٹ بلاکس شامل ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ ان بلاکس سے بھی گیس کے وسیع ذخائر ملیں گے جو ملکی ضروریات کا 50 فیصد تک پورا کریں گے پریشان نا ہوں کہ صرف 50 فیصد یہ تو صرف ایک کمپنی ہے ۔
پاکستان میں گیس کی تلاش کے لیے مختلف سرکاری اور نجی کمپنیاں سرگرم عمل ہیں۔ ان میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ سب سے نمایاں ہے، جو پاکستان کی سب سے بڑی سرکاری کمپنی ہے نے حال ہی میں سندھ کے خیرپور کے علاقے میں خارو-1 کنویں سے گیس اور کنڈنسیٹ کے نئے ذخائر دریافت کیے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپنی دیگر کئی بلاکس میں بھی گیس کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل ) بھی گیس کی تلاش میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ کمپنی بلوچستان، سندھ، اور پنجاب کے کئی علاقوں میں کام کر رہی ہے، جن میں سوئی، شاہدادپور، اور آدھی گیس فیلڈز شامل ہیں اور ٹائیٹ گیس کے لیے کرتھر بلاک میں رِزق اور رحمان گیس فیلڈز پر بھی کام کر رہی ہے کمپنی خیبر پختونخوا اور سندھ کرتھر بلاک میں سخت گیس کے منصوبوں پر سرگرم ہے۔
ٹائیٹ گیس کیا ہے یہ بھی جان لیں ٹائیٹ گیس ایک غیر روایتی قدرتی گیس ہے جو سخت اور غیر جاذب چٹانوں میں پائی جاتی ہے، جیسے سینڈ اسٹون یا لائم اسٹون۔ یہ گیس روایتی گیس کے ذخائر کے برعکس آسانی سے چٹانوں سے خارج نہیں ہوتی، کیونکہ یہ کم نفوذ پذیر اور چھوٹے مساموں میں قید ہوتی ہے۔ اس گیس کو نکالنے کے لیے جدید ٹیکنالوجیز جیسے ہائیڈرولک فریکچرنگ اور ہوریزونٹل ڈرلنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ٹائیٹ گیس کو توانائی کے اہم متبادل کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بھی ٹائیٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں۔ حکومت نے ان ذخائر کو استعمال میں لانے کے لیے مخصوص پالیسیاں متعارف کروائی ہیں، اور کئی کمپنیاں ان ذخائر پر کام کر رہی ہیں۔ اگر ان ذخائر کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ مستقبل میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں
حکومت نے 2024 میں نئی پالیسیوں کے تحت گیس کے غیر روایتی ذخائر، جیسے ٹائٹ گیس اور شیل گیس، کی دریافت میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے اقدامات کیے ہیں۔ یہ کمپنیاں بلوچستان،پنجاب ، سندھ، اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں بھی نئی فیلڈز کی دریافت میں مصروف ہیں، تاکہ ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
ماڑی گیس فیلڈ میں موجود گیس کے ذخائر کی تازہ ترین مقدار کے اعدادوشمار مختلف اندازوں پر مبنی ہیں۔ ماڑی گیس کے ذخائر کو بھی نمایاں وسائل میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن ان کی تفصیلی مقدار کے بارے میں واضح اعدادوشمار حالیہ رپورٹس میں دستیاب نہیں ہیں تاہم پاکستان میں دیگر ذخائر کی دریافت، جیسے کلّات کے مرگند بلاک، نے مستقبل میں ملک کی توانائی کی ضروریات کے لیے اہم کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ سب ذخائر ملنے کے بعد امید ہے کہ آنے والے 100 سال کے لیے مزید سستی گیس پاکستان کو دستیاب ہوگی اس وقت جو مہنگی گیس مہنگی بجلی کا شور ہے یہ آنے والے چند سال میں ختم نہیں تو کم ضرور ہوجائے گا۔