سٹی42: شادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایسا لڈو ہے جو کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے لیکن اب سائنسدان بتا رہے ہیں کہ شادی سوچ سمجھ کر نہ کی جائے تو یہ جسمانی تناؤ اور آخر کار بدمزاجی کا روگ لگا دیتی ہے۔
اب سائنسدانوں نے شادی شدہ افراد پر مرتب ہونے والے ایک عجیب اثر کا انکشاف کیا ہے۔
امریکا کی Binghamton یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ شریک حیات سے تعاون نہ ملنے کا احساس جسمانی تناؤ میں اضافہ کرتا ہے۔
درحقیقت اس احساس سے جسم میں تناؤ کا باعث بننے والے ہارمون کورٹیسول کی سطح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
شادی کرنے کے لیے بہترین عمر کونسی ہوتی ہے؟
کورٹیسول وہ ہارمون ہے جو مزاج، عزم اور رویوں وغیرہ کو کنٹرول کرنے والے دماغی حصوں کے ساتھ کام کرتا ہے۔
تحقیق میں 191 شادی شدہ جوڑوں کو شامل کرکے دیکھا گیا تھا کہ آپس میں بات چیت اور خیال رکھنے سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان جوڑوں کے ساتھ 10، 10 منٹ کے 2 سیشن کیے گئے جن میں ان سے ایسے ذاتی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا جو شادی سے متعلق نہیں تھے۔
محققین نے مثبت اور منفی سماجی معاونت کا تجزیہ گفتگو کے ذریعے کیا اور پھر لعاب دہن کے ذریعے ان کے جسم میں کورٹیسول کی سطح کو دیکھا گیا۔
آخر بیشتر جوڑوں کی شکل شادی کے بعد ایک جیسی کیوں ملتی جلتی نظر آتی ہے؟
محققین کے مطابق ہم نے دریافت کیا کہ شریک حیات سے کم معاونت ملنے کا احساس تناؤ بڑھانے کا باعث بنتا ہے اور جسم میں کورٹیسول کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
اس کے مقابلے میں شریک حیات کی جانب سے زیادہ معاونت ملنے سے لوگوں میں مثبت رویے فروغ پاتے ہیں اور تناؤ میں کمی آتی ہے۔
تحقیق کے مطابق جوڑے یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ مختلف معاملات میں ان کا شریک حیات کس حد تک معاونت فراہم کرے گا اور یہ اندازہ ماضی کے تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ شریک حیات کے تعاون کے بارے میں تصورات وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوتے ہیں اور یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ مختلف حالات میں ان کا رویہ کس حد تک اچھا یا برا ہوگا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شریک حیات کا تعاون ہماری توقعات سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ جوڑوں کے درمیان گفتگو تناؤ کی سطح پر مختلف اثرات مرتب کرتی ہے۔
اس نئی تحقیق کے نتائج جرنل آف سوشل اینڈ پرسنل ریلیشن شپس میں شائع ہوئے۔