سٹی42: تپ دق (ٹی بی)دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتوں کا سبب بننے والی بیماری ہوا کرتی تھی لیکن اب جگر کو برباد کر کے ہلاکت کا سبب بننے والی بیماری ہیپا ٹائٹس سرعت سے ٹی بی کی جگہ لے رہی ہے.
ہیپاٹائٹس کے دو تہائی کیسز صرف 10 ممالک میں سامنے آئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن کمیونٹیز میں ہیپا ٹائٹس پھیل چکا ہے وہاں اب اس کے پھیلنے کی رفتار کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔
ان ممالک میں پاکستان، بنگلا دیش، چین، ایتھوپیا، بھارت، انڈونیشیا، نائیجریا، فلپائن، روس اور ویتنام شامل ہیں۔
مگر پہلی بار ہیپاٹائٹس ٹی بی کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس سے اب ٹی بی جتنی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں ہیپاٹائٹس بی اور سی سے 13 لاکھ اموات ہوئیں۔
اچھی صحت کے لیے ورزش کرنے کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے؟
ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا کہ اگر اسوبائی مرض کو روکنے کے لئے اقدامات نہ کیے گئے تو 2040 تک ہیپاٹائٹس سے ہونے والی ہلاکتیں ٹی بی، ایچ آئی وی اور ملیریا سے ہونے والی مجموعی ہلاکتوں سے زیادہ ہو جائیں گی۔
ماہرین نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس کا وائرس خون کے ذریعے پھیلتا ہے اور عالمی طبی ماہرین کی جانب سے اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وائرل ہیپاٹائٹس پر عالمی سطح پر زیادہ وجہ نہیں دی جا رہی، درحقیقت ایچ آئی وی، ٹی بی اور ملیریا کے خالف عالمی فنڈ کے قیام کے دوران ہیپاٹائٹس کے بوجھ کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران کم آمدنی والے ممالک میں ہیپاٹائٹس کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان کے پاس اس وائرس کی روک تھام کے لیے درکار وسائل موجود نہیں۔ مگر اب ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سے ہونے والی 83 فیصد اموات ہیپاٹائٹس بی اور جبکہ 17 فیصد ہیپاٹائٹس سی کے باعث ہوتی ہیں۔
ہیپاٹائٹس کی علامات میں تھکاوٹ، یرقان اور متلی قابل ذکر ہیں، مگربیشتر کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور مرض کی تشخیص آخری مرحلے میں ہوتی ہیں۔
اس وائرس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ متاثرہ خون کی منتقلی سے پہلے سکیننگ نہ کرنا، وائرس سے آلودہ سرنجوں اور آلات کا استعمال ہے جبکہ ہیپاٹائٹس بی متاثرہ ماں سے بچوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی سے تحفظ کے لیے ایک ویکسین دستیاب ہے مگر بیشتر ممالک کو اس تک رسائی حاصل نہیں۔
ہیپٹاٹائٹس بی اور سی کا علاج بھی موجود ہے مگر بیشتر افراد اس تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے۔