’ہم کبھی بھی آمروں اور ججز کی طرح من مانی سے قانون سازی یا آئین میں ترمیم نہیں کرتے‘

13 Oct, 2024 | 05:18 PM

روزینہ علی : چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہماری تاریخ ان لوگوں کے لیے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا آغاز کرکٹ ورلڈ کپ سے ہوتا ہے۔ 

 بلاول بھٹو نے آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے اہم ٹویٹر پیغام دیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس دراب پٹیل کے تجربے نے ثابت کیا کہ وفاقی آئینی عدالت پاکستان کی ضرورت تھی، جسٹس پٹیل نے آئینی عدالت کا خیال اپنے ساتھیوں، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان سے شیئر کیا جو ان سے متفق تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ ان لوگوں کے لیے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا عروج عمران خان اور جنرل فیض کے انقلاب پر ہوتا ہے۔ 

بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی ارتقاء، منشور اور میثاق جمہوریت کے لیے ہمارا عزم ہمیشہ یکساں رہا ہے، چاہے وزیراعظم، ججز اور اسٹیبلشمنٹ کے چہرے بدلتے رہیں، ہم کبھی بھی آمروں اور ججز کی طرح من مانی سے قانون سازی یا آئین میں ترمیم نہیں کرتے، ہم اپنی نسلوں کے لیے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں 18ویں ترمیم میں 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے لیے 30 سال لگے، ہمیں 19ویں ترمیم اور پی سی او چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سیاست کے عدالتی فیصلوں کے نقصانات کو دور کرنے کے لیے تقریباً دو دہائیاں لگ چکی ہیں ۔ 

چیئرمین پیپلزپارٹی نے اپنے پیغام میں کہا کہ 26ویں ترمیم عجلت میں نہیں کی جا رہی، بلکہ یہ کافی عرصہ پہلے ہی ہونی چاہیے تھی ۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس دراب پٹیل ان چار معزز ججوں میں شامل تھے جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بری کیا، جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک بانی رہنے والے جسٹس پٹیل کا مؤقف تھا کہ قائد عوام کو سزا دینے کے لئے کوئی ثبوت نہیں تھا، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے بانی رکن رہنے والے جسٹس پٹیل بھٹو شہید کیس میں گواہ کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے تھے ۔ دوراب پٹیل نے یہ بھی کہا کہ بھٹو شہید کا ہائی کورٹ میں ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانا ایک غلطی تھی، جسے تسلیم کرنے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو 45 سال لگے ۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس پٹیل نے 1981 میں آمر ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور مستعفی ہونا پسند کیا، سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس دراب پٹیل اگر ایسا نہ کرتے تو وہ پاکستان کے چیف جسٹس بن جاتے ۔

مزیدخبریں