شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی میزبانی کیلئے اسلام آباد اپنی پلکیں بچھائے ہوئے ہے جہاں چین، روس، ایران سمیت 10 ممالک کے سربراہان 15 اور 16 اکتوبر کو شریک ہوں گے، تو دوسری جانب ہمارے گندے انڈوں (تحریک انصاف) نے بھی ریڈ زون میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم کے سربراہان مملکت کی میزبانی بلاشبہ پاکستان کیلئے ایک اہم کامیابی ہے، اجلاس کو کامیاب بنانے کیلئے، سیکیورٹی اور دیگر انتظامات کیلئے سیکیورٹی اداروں اور انتظامیہ نے بہترین اقدامات کیے ہیں۔ تجارت، سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت، ممبر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات اور خطے کو امن و سلامتی کی مشترکہ کاوشوں سے بہتر بنانا تنظیم کے اہداف میں شامل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی بدولت پاکستان میں جہاں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے، وہیں پاکستان ممبر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانے کا خواہاں ہے۔ پاکستان اپنے جفرافیائی حدود اربعہ اور جاری اقتصادی و معاشی منصوبوں سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی تکمیل کے ساتھ خطے میں انتہائی اہمیت کا حامل بن جائے گا۔
آسلام آباد میں جہاں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں پاکستان کی قسمت کا فیصلہ ہونے جارہا ہے وہیں پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کیجانب سے 15 اکتوبر منگل کو ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان کردیا گیاہے، یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا کہ تحریک انصاف کی جانب سے ملکی مفادات کو پس پردہ رکھتے ہوئے متنازعہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ 2014 میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے باعث چینی صدر کا طے شدہ دورہ منسوخ ہوگیا تھا، جس سے ایک بات تو واضح ہے کہ یہ ملکی مفاد میں بالکل بھی نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف شدت، فسطائیت، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ، انتشار اور ریاست مخالف سرگرمیوں جیسے الزامات سے ابھی تک اپنا پیچھا نہیں چھڑوا سکی۔ موجودہ ملکی سیکیورٹی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس تناظر میں ہم ملکی معاشی ترقی کیلئے اہم پیشرفت شنگھائی تعاون تنظیم جیسے اجلاس کو ثبوتاز کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اپنی غلطیوں کو دہرانے کا وطیرہ بنا لیا ہے جس سے ان کو بسا اوقات منہ کی کھانا پڑتی ہے، حالانکہ ہونا یہ چاہئیے تھا کہ ماضی کی تلخیوں اور سیاسی اختلافات بھلاتے ہوئے دل بڑا کرکہ اسلام آباد پر لشکر کشی کی بجائے غیرملکی سربراہان کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا جاتا۔ سیاست اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کو کسی صورت بھی ریاست پر ترجیح نہیں دی جاسکتی، اور کسی بھی سیاسی جماعت کا قد ریاست سے بڑا نہیں ہوسکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ 9 مئی آج بھی جماعت کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہورہا ہے، ریاستی اداروں پر دھاوا، جلاؤ گھیراؤ اور نفرت کی سیاست نے پی ٹی آئی کو اندھے کنوئیں میں جا پھینکا ہے۔ وزیراعلی کے پی علی امین گنڈاپور کیجانب سے بازاری زبان کا استعمال، ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور اسلام آباد کی طرف لشکر کشی پی ٹی آئی کیلئے کسی صورت بھی سود مند ثابت ہونے کی بجائے اڈیالہ جیل سے احکامات جاری کرنے والے بانی پی ٹی آئی کی مشکلات کو مزید بڑھا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا ٹریک ریکارڈ داغدار اور کردار مشکوک ہے، ریاست اگر پی ٹی آئی بلوائیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتی تو پی ٹی آئی کسی صورت آج ایس سی او کے موقع پر ریڈ زون میں احتجاج کی کال نہ دیتی۔ وزیرمملکت عطاء تارڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا قانون نافذ کرنے والے ادارے الرٹ ہیں اللہ کے کرم سے ملکی سلامتی صورتحال پر پوری توجہ مرکوز ہے، مشیر وزیراعظم رانا ثنا اللہ نے کہا پی ٹی آئی سیاسی نہیں ملک دشمن جماعت ہے احتجاج کا اعلان پاکستان کے خلاف ہے۔
ایس سی او اجلاس کا بنیادی مقصد بیرونی سرمایہ کاری کو پاکستان لانا تھا جس سے پاکستان کو بتدریج اور مرحلہ وار کامیابی ملی ہے شنگھائی تعاون تنظیم ممبر ممالک کیجانب سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع تر امکانات روشن ہوگئے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 2.2 ارب ڈالر کے 28 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جبکہ چائنہ کے ساتھ 25 ارب ڈالر کے 25 منصوبوں پر سرمایہ کاری کی توقع کی جارہی ہے۔ اس وقت پاکستان کو اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، شنگھائی تعاون تنظیم ممبر ممالک سے تجارتی تعلقات مستحکم کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں بہترین معاشی پالیسیوں کے ساتھ جانا ہوگا، تاکہ ممبر ممالک معاشی پالیسیوں سے بہرہ ور ہونے کیلئےبھرپور سرمایہ کاری کریں، بلاشہ پاکستان میں آنے والی سرمایہ کاری ملکی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔