کمیلا ہیرس ہماری اپنی ہے- جنوبی ایشیائی باشندوں کیلئے خاص مہم

13 Oct, 2024 | 01:16 AM

Waseem Azmet

سٹی42: کمیلا ہیرس کی بہن مایا ہیرس بہن کی انتخابی مہم میں جنوبی ایشیا کے باشندوں کو پہلی قطار میں لانے کے لئے کوشاں ہیں اور انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ 

ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر کے عہدہ کے لئے امیدوار کمیلا ہیرس کی بہن    مایا ہیرس آج کل امریکا کی ریاستوں کا دورہ کررہی ہیں اور وہ خاص طور سے جنوبی ایشیائی امریکیوں کو کمیلا ہیرس کی انتخابی مہم میں ووٹ نہیں بلکہ عملی سپورٹ کرنے کے لئے آمادہ کر رہی ہیں۔ 
 امیرکہ کے میڈیا مین سامنے آنے والی رپوررٹس کے مطابق   ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کمیلا ہیرس کی بہن اور مشیر مایا ہیرس نے جنوب ایشیائی کمیونٹی پر زور دیا ہے کہ وہ صدارتی الیکشن میں فعال کردار ادا کریں اور کمیلا ہیرس کی جیت یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں۔


مایا ہیرس نے کیلیفورنیا کے شہر بریڈبری میں فنڈ ریزنگ ڈنر سے خطاب میں پاکستانی امریکن ڈیموکریٹ ڈاکٹر آصف محمود  کو اپنے گھر کا فرد قرار دیا۔ یہ تقریب ہوئی بھی ڈاکٹر آصف محمود کے گھر پر تھی۔

مایا ہیرس کی تقریر میں ان پالیسی نکات کا احاطہ کیا گیا جو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کمیلا ہیرس کی انتخابی مہم کا مرکز ہیں اور ان میں امیگریشن، اسقاط حمل، مڈل کلاس امریکیوں کیلیے زیادہ سے زیادہ مواقع اور امیروں پر ٹیکس شامل ہے۔

مایا ہیرس امریکا کی مختلف ریاستوں کا دورہ کررہی ہیں تاکہ اپنی بہن کی انتخابی مہم کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ نائب صدر کی واحد زندہ خونی رشتہ دار ہونے کے ناطے ان سے زیادہ شاید کوئی بھی کمیلا ہیرس کے بارے میں ووٹرز کو بہتر آگاہ نہیں کرسکتا۔

مایا ہیرس کا کہنا ہےکہ اگر کمیلا کو جاننا ہے تو اسکے لیے شیاملا گوپالن کی زندگی میں جھانک کردیکھنا ہوگا۔ایک 19 برس کی لڑکی جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب سجائے 1958 میں اکیلی امریکا آئی۔ ایک ایسے دور میں جب اس قدر کم عمر لڑکیوں کو بھارت سے امریکا بھیجنا انتہائی غیرمعمولی تصور کیا جاتا تھا۔

شیاملا ہیرس بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر مدراس میں پیداہوئیں جسے اب چنئی کہا جاتا ہے۔ وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں پڑھنے آئی تھیں۔ پاکستانی اس یونیورسٹی کو یوں تو کئی حوالوں سے جانتے ہیں اوران میں سے ایک یہ بھی کہ شیاملا کے یہاں آنے سے تقریباً دس برس پہلے اسی یونیورسٹی سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے گریجویشن کی تھی۔

شیاملا نے برکلے سے نیوٹریشن اور اینڈو کرائنالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اوراسی یونیورسٹی میں چھاتی کے سرطان سے متعلق تحقیق سے وابستہ ہوگئیں۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے دور ہی میں ایک مظاہرے کےدوران انکی ملاقات ڈونلڈ جے ہیرس سے ہوئی جن کا تعلق جمیکا سے تھا۔

شیاملا اور ہیرس کی تین برس کی دوستی اور محبت 1963 میں رشتے میں بدل گئی۔ کمیلا اورمایا پیدا ہوئیں مگر شادی نبھ  نہ سکی اور معاملہ انیس سو ستر کے اوائل ہی میں طلاق تک جاپہنچا۔اس وقت کمیلا کی عمر صرف سات برسی تھی۔

امریکا میں ایک بار پھر تنہاہونے کے باوجود شیاملا نے اپنی دونوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، محنت، لگن اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آنتوں کے کینسر میں مبتلا شیاملا نے سن دوہزار نو میں ستر برس کی عمر میں انتقال سے پہلے دونوں بیٹیوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائض دیکھا۔

مایا نے اپنی والدہ کو ذکر کرتے ہوئےبارہا کہا ہے کہ جو سبق انہوں نے اپنی والدہ کی زندگی سے سیکھا وہ یہ کہ لوگوں کا پس منظر اور جدوجہد مختلف ہوسکتی ہے مگرجو چیز یکساں ہے وہ یہ کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کے فیصلوں میں آزاد ہو۔    

اپنی بہن کے بارے میں بتاتے ہوئے مایا نے کہا کہ کمیلا ایسی جمہوریت کی حامی ہیں جس میں سب کو مواقع ملیں۔ یہ نہ دیکھا جائے کہ آپ کا رنگ کیا ہے، تعلق کس علاقے سے ہے، زبان اور لہجہ کیسا ہے یا مذہب کیا ہے۔

مایا ہیرس نے کہا کہ کمیلا کے نزدیک اختلافات کمزوری نہیں، طاقت کی علامت ہیں اور امریکا کی ترقی مڈل کلاس کو مضبوط کرنے میں ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ امیروں پر ٹیکس لگاکر مڈل کلاس کو ہدف بنانا چاہتے ہیں۔

مایا ہیرس نے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے بھی خطاب کیا تھا جس میں مایا نے کہا کہ تھا کہ ان کے گھر کی کہانی پکی امریکن اسٹوری ہے۔ کمیلا اس بات سے واقف ہیں کہ لوگوں کو نظرانداز کیا جانا کتنا تکلیف دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہیں۔

اسی مؤقف نے انتخابی مہم میں نئی روح پھونکی ہے، مومینٹم بڑھ رہا ہے مگر کوئی کسر نہیں چھوڑی جانی چاہیے کیونکہ انتہائی کانٹے کا مقابلہ ہے۔ ٹرمپ لوگوں کو ماضی میں دھکیلنا چاہتے ہیں مگر کمیلا کہتی ہیں کہ ہم پیچھے جانیوالے نہیں۔

مایا ہیرس امریکا کی سابق صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کی مشیر رہی ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ اگر کمیلا ہیرس صدر بنیں تو وہ اپنی بہن کو اہم عہدے پر فائض کریں گی۔

مزیدخبریں