گزشتہ ہفتے بلوچستان میں دہشتگردی کی طویل عرسہ سے جاری سرگرمیوں میں ایک خوفناک قتل عام کا اضافہ ہوا لیکن یہ صرف ایک اور دہشتگردی کا واقعہ نہیں تھا بلکہ دہشتگردی میں ملوث گروہ بلوچ لبریشن آرمی کا اپنے نام نہاد چہرے پر چڑھا نقاب نوچ از خود نوچ پھینکنے کا واقعہ تھا۔ کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر پبلک کے ہجوم کے اندر گھس کر خود کو کئی کلو گرام خطرناک بارودی مادے کے ساتھ اڑا لینے والے دہشتگردوں کا تعلق کسی خارجی گروہ سے نہیں تھا بلکہ یہ دہشتگرد نام نہاد "لبرل ڈیموکریٹک قوم پرستی" کی شناخت کے نعرے لگانے والے موڈرن بلوچ مردوں اور عورتوں پر مشتمل بلوچ لبریشن آرمی کا تربیت یافتہ ہے۔ اس مرتبہ بی ایل اے نے اس دہشتگردی کو فوراً قبول کیا اور خود فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ یہ خود کش حملہ ان کے کارکن رفیق نے کیا۔
بی ایل اے کے اپالوجسٹ اب کیا کہیں گے
بی ایل اے کے اس فخریہ اعتراف کے بعد اس گروہ کے اپالوجسٹوں کے لئے پریشان کن صورتحال ہے کہ اب وہ کس بنیاد پر اس شقی القلب قاتلوں کے گروہ کی وکالت کریں، لیکن اہم انٹرنیشنل صحافتی ادارہ بی بی سی نے حیرت ناک مہارت کے ساتھ یہ پیچیدہ مسئلہ حل کر دیا اور بحث کا رخ ہی بدلنے کی کوشش شروع کر دی، اس کوشش کے نتیجہ میں بحث کا رخ بدلے نہ بدلے، یہ واضح ہے کہ بی بی سی بلوچ لبریشن آرمی عرف بی ایل اے کے کھلے اعتراف کے باوجود اس گروہ کو دہشتگرد تنظیم ماننے اور لکھنے پر آمادہ نہیں ہے۔
بی بی سی کا ڈرامائی ٹوِسٹ
اس کے برعکس بین الاقوامی نشریاتی ادارہ بی بی سی نےبتایا ہے کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بم حملہ کے ذمہ دار رفیق کو لاپتہ رفیق قرار دینا غلط ہے، لاپتہ رفیق ایک اور ہستی ہے جبکہ بلوچ لبریشن آرگنائزیشن نے جس رفیق کے متعلق اعلان کیا کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بم کا خودکش حملہ اس نے کیا تھا وہ ایک اور ہستی ہے۔ بی بی سی نے اپنی اس "تحقیقاتی" سٹوری میں صرف یہ ہی ثابت نہیں کیا کہ سوشل میڈیا پر جس لاپتہ کو دہشتگرد خود کش قرار دیا جا رہا ہے وہ دعویٰ دراصل ایک فوٹو شاپ کئے گئے امیج کی بدولت کیا جا رہا ہے جبکہ اصل حملہ آور " کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی" کارکن رفیق کوئی اور آدمی ہے۔
بی بی سی نے اپنی اس تحقیقاتی سٹوری میں شہر کے ریلوے سٹیشن پر سویلین بے گناہوں کو اور خود اپنے ایک کارکن کو بہیمانہ انداز سے خودکشں بم حملے میں موت کے گھاٹ اتارنے والے گروہ بی ایل اے کو دہشت گرد قرار نہیں دیا نہ ہی اس کے کارکن کی خود کش دہشت گردی کو دہشتگردی لکھا بلکہ اس دہشتگردی کی سرگرم حامی بظاہر پر "امن احتجاج" کرنے والی خاتون مہرنگ بلوچ کو اس "تحقیقاتی سٹوری" کی مدد سے ایک بار پھر مظلوم اور مظلوموں کے حقوق کی چیمپئین قرار دے دیا۔
ننگی دہشتگردی کو قالین کے نیچے چھپانا اتنا آسان
اس بلنٹ حقیقت کو سوشل میڈیا پر ایک فیک فوٹو شاپ کی گئی تصویر کو پھیلانے والے کسی فرد کے جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کی عظیم پیشہ ورانہ خدمت کی آڑ میں قالین کے نیچے چھپا دیا گیا کہ "کالعدم عسکریت پسند" اور "کالعدم علیحدگی پسند" تنظیم "بلوچ لبریشن آرمی" کوئی قومی آزادی کے مجاہدوں اور سیاسی کارکنوں کی نہیں بلکہ ننگی گندی دہشتگردی کرنے والے شقی القلب فسادیوں کا گروہ ہے جس کے سرغنہ کہیں پہاڑوں کی غاروں میں نہیں بلکہ انگلینڈ، یورپ کے دیگر ملکوں اور بھارت کے شہروں میں پرتعیش رہائش گاہوں میں رہتے ہیں۔
بی بی سی نے اپنی اس "تحقیقاتی " رپورٹ کی ریشنیل یہ بیان کی کہ اس کا مقصد سوشل میڈیا پر جنم لینے والی ایک کنٹروورسی کی تحقیقات کرنا ہے، اس سٹوری کے ابتدائیہ مین لکھا گیا، "اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم علیحدگی پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے تاہم گذشتہ کچھ دنوں سے صوبے میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر آواز اٹھانے والے حلقے، خاص طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ، پر تنقید کی ایک لہر سامنے آئی ہے۔
سنیچر کے اس واقعے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایسے کئی پیغامات توجہ حاصل کر رہے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن دھماکے کے پیچھے ایک ایسا خودکش بمبار تھا جو ماضی میں ’مسنگ پرسن‘ قرار دیا گیا تھا۔ بی بی سی اردو نے ہزاروں بار شیئر کی گئی ایک تصویر کا جائزہ لیا ہے جس میں بظاہر ماہ رنگ بلوچ کے پس منظر میں لاپتہ افراد کے چہروں کے بیچوں بیچ ایک ایسے شخص کا چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے جسے کوئٹہ میں ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے سے جوڑا جا رہا ہے۔"
انفارمیشن ریوولیشن ایج میں صحافت کی تشویش ناک صورتحال
انگلینڈ، انڈیا اور بعض دوسرے مغربی ممالک کی حکومتیں بلوچ لبریشن آرمی کے دہشتگردوں کی سرپرستی اور مدد کیوں کرتی ہیں یہ الگ سوال ہے ، لیکن بی بی سی جیسا بظاہر اعلیٰ صحافتی اصولوں کی پیروی کرنے والا ادارہ بلوچ لبریشن آرمی کے ننگی گندی دہشتگردی کو فخر کے ساتھ قبول کرنے اور اس دہشتگرد کارروائی میں آلہ کار بننے والے دہشتگرد رفیق کا ذکر احترام کے ساتھ کیوں کرتا ہے یہ سوال سو کالڈ انفارمیشن ریوولیوشن ایج میں صحافت کی زیادہ تشویش ناک صورتحال سے متعلق ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی اور اس جیسے تمام دہشتگرد گروہوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے کسی نام نہاد "اخلاقی جواز" اور "ہائی مورل گراؤنڈ " کی تلاش ہوتی ہے۔ ان کے پروپیگنڈا کے ماہرین اپنے کارکنوں اور اپنے حامیوں کو دہشتگردی کی ظالمانہ کارروائیوں میں شریک ہونے اور ان کارروائیوں کی حمایت کرنے پر قائل کرنے اور قائل رکھنے کے لئے بھاری بھرکم پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ دہشتگرد گروہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کی اخلاقی اور قانونی حیثیت الگ سوال ہے لیکن۔ آمدم بر سرِ مطلب، صحافتی ادارہ کیونکر کسی دہشتگرد گروہ کے پیچیدہ دہشتگردی میں کام آنے والی برین واشنگ کا حصہ بن سکتا ہے، ادارہ بھی وہ جس کی کریڈیبلٹی کو پاکستان اور بھارت جیسے پسماندہ معاشروں میں شبہ سے بالاتر ماننے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔
کامن سینس سے سوچیں تو بی بی سی اور اس جیسے دیگر دلچسپی رکھنے والے صحافتی اداروں کو کوئٹہ دہشتگرد حملے کے بعد اگر اپنے صحافتی وسائل کو لگانا تو اس تحقیق پر چاہئے تھا کہ بلوچ لبریشن آرگنائزیشن جو چند سال پہلے دعویٰ کرتی تھی کہ وہ صرف فوجیوں اور پولیس جیسے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بناتی ہے اور دہشتگرد نہیں بلکہ "قومی آزادی کی جدوجہد" کرنے والے رضاکار ہیں جنہیں "عسکریت پسند" تو کہا جا سکتا ہے، دہشت گرد نہیں۔
سالہا سال سے بلوچ لبریشن آرمی کے اس دعوے کا "احترام" کرتے ہوئے بی بی سی اس گروہ کو آج بھی "دہشت گردی میں ملوث گروہ" کہنا اور لکھنا ترک کرنے کا سنجیدہ مرحلہ درپیش ہے؛ بلوچ لبریشن آرگنائزیشن نے پہلے کئی مرتبہ بلوچستان کے اندر سویلینز کو بڑے پیمانہ پر قتل کا نشانہ بنایا اور اب دہشتگردی کی سب سے بلنٹ فارم یعنی پبلک کے ہجوم میں بم پھوڑ دینا وہ بھی ایک زندہ انسان کو خودکش بنا کر اس کے جسم پر دھماکہ خیز مواد لپیٹ کر، فخر کے ساتھ قبول کر لیا۔
بی بی سی اور اس جیسے دیگر صحافتی اداروں کے پاس کم از کم اب تک بی ایل اے کو "عسکریت پسند" اور "علیحدگی پسند" جیسے نسبتاً معتدل ٹائٹلز کے پیچھے چھپانے کا کوئی جواز باقی نہیں کیونکہ "عسکریت پسند" فخر کے ساتھ نعرے بلند کر رہے ہیں کہ وہ درحقیقت "دہشت پسند" اور قاتل ہیں جو بے گناہ لوگوں کے رنگ، نسل کا امتیاز کر کے بھی قتل عام کرتے ہیں اور کبھی ضرورت پڑے تو خود اپنی نسل اور ثقافت سے تعلق رکھنے والوں کو بھی مارنے سے نہیں چوکتے جن کی "آزادی" کے نام سے وہ پاکستان کی ریاست کی بنیاد گرانے کے درپے رہتے ہیں۔