ذیابیطس کا عالمی دن

13 Nov, 2021 | 09:56 AM

 ویب ڈیسک : دنیا بھر میں ہر سال 14نومبر کو انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے تحت شوگر کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد دنیا میں عام آگاہی پھیلانا اور انسولین کے موجد فریڈرک بینٹنگ (Fredrick Banting) کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

فریڈرک بینٹنگ (Fredrick Banting) کا یوم پیدائش 14نومبر ہے، یاد رہے کہ فر یڈرک بینٹنگ کے ساتھ دوسرے سائنس دان جنہوں نے انسولین کی دریافت میں اہم کردار ادا کیا، ان کے نام چارلس بیسٹ (Charles Best) اور جان جیمز ریکڈ میکلوڈ (John James Rickard Macleod)ہیں، انہوں نے مل کر 1922ء میں انسولین دریافت کی تھی۔

آئی ڈی ایف اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے شوگر کی بڑھتی ہوئی خطرناک شرح کے پیش نظر عوام میں شوگر سے بچاؤ اور بروقت علاج کے لیے عام آگہی پیدا کرنے کیلے پہلی بار 1991 کو شوگر کا عالمی دن منایا تھا۔

شوگر عالمی دن پر ہم آپ یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ یہ کن عام وجوہات سے ہوتی ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔

شوگر کی بنیادی وجوہات
موٹاپا

غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی (Sedentary LifeStyle)

خاندان میں شوگر کے مرض کا عام ہونا (Family History)

غیرمتوازن غذا (Non-Healthy Food)

بڑھتی ہوئی عمر

بلڈ پریشر (Hypertension)

خون میں چکنائی کا عدم توازن (Dyslipidemia)

آئی ڈی ایف ہر سال عالمی دن کو ایک عنوان دیتی ہے جس کامقصد شوگر کی عام وجوہات، اسباب، تحفظ اور باقاعدگی سے علاج کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے اور رواں برس اس تنظیم نے خاندان کی اہمیت کے پیش نظر عنوان دیا ہے۔

ہم ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں غیر متعدی امراض (Non-Communicable Diseases) سے فوت ہونے والوں کی تعداد متعدی امراض سے فوت ہونے والوں سے زیادہ ہے، یاد رہے کہ غیر متعدی امراض میں شوگر سرفہرست ہے۔

 مصروف اور جدید طرز زندگی نے دنیا کو نت نئی بیماریوں کا تحفہ دیا ہے۔ ذیا بیطس بھی ان میں سے ایک ایسی موذی بیماری ہے جو دنیا میں انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

اس بیماری نے آج ہر عمر کے لوگوں پر دھاوا بولا ہوا ہے۔ دنیا کو اس مرض کے مضمرات، وجوہات اور بچاﺅ سے آگاہی دلانے کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او نے 14 نومبر کو ذیابیطس کے عالمی دن سے منسوب کردیا۔ اس دن دنیا بھر میں ذیابیطس کے حوالے سے خصوصی سیمینارز اور پروگرامز مرتب کئے جاتے ہیں۔

اس وقت دنیا کے 24 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جبکہ مجموعی طور پر مذکورہ عمر کی 6 فیصد عالمی آبادی ذیابیطس کا شکار ہے۔

1985ء میں دنیا میں 3 کروڑ افراد ذیابیطس کا شکار تھے، یہ تعداد 2000ء میں 15 کروڑ، 2003ء میں 19 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔22سالوں میں ذیابیطس کے مریضوں میں21کروڑ سے زائد جبکہ گزشتہ سات برسوں کے دوران 9 کروڑ 60لاکھ یعنی 64فیصد اضافہ ہوا۔

عالمی سطح پر سالانہ 38لاکھ (20 سے 79 سال کے بالغ) افراد ذیابیطس اور اس سے منسلک امراض کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں جو دنیا میں کل ہونے والی اموات کا 6 فیصد ہے، ذیابیطس دنیا میں ہونے والی اموات کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔

ذیابیطس پر تحقیق کرنے والے عالمی اور ملکی اداروں سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق ذیابیطس کے مرض میں مبتلا سب سے زیادہ بالغ افراد6کروڑ 70لاکھ مغربی بحرالکاہل کے ہیں، دوسرے نمبر پر5کروڑ30لاکھ یورپی بالغ باشندے اس موذی مرض کا شکار ہیں جبکہ فیصدی اعتبار سے مشرقی میڈی ٹرینین اور وسطی مغربی خطے کے 9.2 فیصد اور شمالی امریکہ کے 8.4 فیصد بالغ افراد ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

اگر حالات میں بہتری پیدا نہ ہوئی تو آئندہ 18 برس کے دوران اوسط سالانہ 74لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہوجائیں گے۔ عالمی سطح پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس کے 24کروڑ60لاکھ مریضوں میں سے 80 فیصد ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔

دنیا میں ذیابیطس سے متاثرہ 10بڑے ممالک میں7تیسری دنیا کے ممالک ہیں۔ ذیابیطس پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے کے 2007ءکے تازہ اعدادوشمار کے مطابق ذیابیطس کے سب سے زیادہ مریض یعنی 4کروڑ9لاکھ بھارت میں موجود ہیں۔

چین میں ایسے افراد کی تعداد 3کروڑ 98 لاکھ، تیسرے نمبر پر امریکہ میں ایک کروڑ 12 لاکھ، روس میں 96 لاکھ، جرمنی میں 74 لاکھ، جاپان میں70لاکھ جبکہ پاکستان ذیابیطس میں مبتلا افراد کے حوالے سے ساتویں نمبر پر ہے جہاں 69 لاکھ افراد مذکورہ مرض کا شکار ہیں۔

ماہرین کی پیش گوئی کے مطابق 2025ء تک ملک میں ذیابیطس کے مریضوں میں 66.6 فیصد اضافہ ہوگا اور تعداد ایک کروڑ15لاکھ ہوجائے گی جبکہ 2025ء تک پاکستان کے ذیابیطس سے متاثرہ پانچویں بڑے ملک بننے کے خطرات لاحق ہیں۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ذیابیطس کی بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ 20 سالوں میں اس کے مریضوں کی تعداد دو گنی ہوجائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق آنے والے کچھ سالوں میں پاکستان میں 25 فیصد افراد اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں۔

مزیدخبریں