سٹی42: وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے آئین توڑنے کی بنا پر سابق ڈکٹیٹر ایوب خان پر آرٹیکل 6 نافذ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شور شرابہ اور سکیورٹی کے مسائل کے خدشات کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق پر بھی سخت تنقید کی۔
خواجہ آصف کی تقریر سے پہلے اپوزیشن لیڈر اور ایوب خان کے صاحبزادے عمر ایوب نے آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی حکومت پر سخت تنقید کی تھی، انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ 11 مارچ 1971 کو جنرل یحییٰ، شیخ مجیب سے جا کر ملے، شیخ مجیب الرحمان کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کیا گیا، اس کے بعد ایک تاریخ ہے جس میں ملک دولخت ہوا، وہ فیصلہ یحییٰ خان کا فیصلہ تھا پورے ادارے کا نہیں۔
ایوب خان نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا، خواجہ آصف
خواجہ آصف نے عمر ایوب کی تقریر کے جواب میں کہا کہ آئین کی پہلی خلاف ورزی ایوب خان نے کی تھی، آئین توڑنے والوں کے خلاف آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ایوب خان کی میت کو قبر سے نکال کر پھانسی دی جائے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی آئین توڑا، ان پر بھی آرٹیکل 6 لگائیں۔
اپوزیشن کا شور شرابا، سپیکر کی اجلاس ملتوی کرنے کی دھمکی
وزیردفاع خواجہ آصف کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے ایوان میں شورشرابہ شروع کر دیا۔ وزیر دفاع نے اس صورتحال پر کہا کہ اسپیکر صاحب!اپوزیشن کو مرچیں لگ رہی ہیں، مرچیں لگنی بھی چاہیئں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم تو مانتے ہیں کہ ہم جنرل ضیا کے ساتھ تھے، ہم نے اس پر معافی بھی مانگی۔ ان لوگوں کو تو یاد ہی نہیں کہ یہ کہاں کہاں تھے۔ ان کو اتنا خوف ہے وکیلوں کی وردی پہن کر ایوان میں آتے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ "امریکی بیانیہ" کی جگہ اب "لندن پلان" نے لے لی ہے۔
یہ آج تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ چیئرمین پی اے سی کون ہوگا، خواجہ آصف نے اپوزیشن پارٹی میں انتشار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن ارکان ہی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سپیکر سے ملاقات کرنے پر شیر افضل مروت کو فارغ کردیا گیا۔
خواجہ آصف کی تقریر کے دوران اپوزیشن شور شرابہ کرتی رہی اور خواجہ آصف کی تقریر کے بعض جملے کارروائی سے حذف کرنے کا مطالبہ کرتی رہی۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اپوزیشن کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو غیر پارلیمانی الفاظ تھے وہ پہلے ہی انہیں کارروائی سے حذف کر چکے ہیں، اب مزید کوئی لفظ حذف نہیں کریں گے۔ انہوں نے اپوزیشن ارکان کو خواجہ آصف کی تقریر کے دوران پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجاز بھی نہیں دی اور کہا کہ جب اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے تقریر کی تو کسی نے مداخلت نہیں کی تھی۔
اپوزیشن ارکان کے مسلسل شور مچانے پر سپیکر ایاز صادق نے وارننگ دی کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ اجلاس ملتوی کر دیں گے۔ بعد ازاں انہوں نے خواجہ آصف کو دوبارہ بولنے کا موقع دیا۔
خواجہ آصف کی سپیر ایاز صادق پر تنقید
خواجہ آصف نے دوبارہ بات کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی پر بھی سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں باہر سے لوگوں کو آنے کی اجازت ہے، خون خرابہ کاخدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ایک ایک جگہ چھ چھ لوگ اکٹھے کھڑے ہوتے ہیں۔ سپیکر کے دفتر سے ایک ایک رکن کو بیس بیس افراد کے (اسمبلی کی مہمانوں کی گیلری میں لانے کے) پاس جاری ہو رہے ہیں۔ انہوں نے سپیکر سے کہا کہ اگر سکیورٹی کا کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا تو اس کے ذمہ دار سپیکر ہوں گے۔
عمر ایوب کی قومی اسمبلی میں تقریر
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ جو بھی آئین کو معطل یا ختم کرے وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت صحیح جمہوریت کا فقدان ہے، اظہار رائے کی آزادی بہت کم ہے، سوشل میڈیا ایپ ایکس کو بند کیا گیا۔ میڈیا پر دباؤ ہے۔
عمر ایوب نے کہاکہ 9 مئی کے حوالے سے آزاد جوڈيشل کمیشن ہونا چاہیے جسے تمام سی سی ٹی وی ویڈیوز تک رسائی ہو، سچ سامنے آنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی اور اوجڑی کیمپ پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے۔ آرمی پبلک اسکول کی انکوائری رپورٹ بھی سامنے آنا چاہیے۔ حمود الرحمان کمیشن اور ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹس بھی سامنے آنا چائیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ جب بینظیربھٹو کوشہیدکیا گیا اس وقت پورے ملک میں تشدد ہوا، تشدد کے واقعات سے نقصان کی رقم 2 ارب ڈالر بنتی ہے،کراچی میں ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس وقت کوئی گرفتاری ہوئی۔
عمر ایوب نے کہا کہ 11 مارچ 1971 کو جنرل یحییٰ، شیخ مجیب سے جا کر ملے، شیخ مجیب الرحمان کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کیا گیا، اس کے بعد ایک تاریخ ہے جس میں ملک دولخت ہوا، وہ فیصلہ یحییٰ خان کا فیصلہ تھا پورے ادارے کا نہیں۔
عمر ایوب خان نے کہا کہ عدلیہ کھڑی ہوگئی ہے، ان ججوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی خوددار اور بہادر شخص ہیں، وہ خوف کے بت توڑنے کی بات کرتے ہیں، ہم یہاں خوف کے بت توڑ کر آئے ہیں، آگ کا دریا عبور کرکے آئے ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے آخری دم تک کھڑے رہیں گے۔ پنجاب اور وفاقی حکومت فارم 47 کی دیمک زدہ بیساکھی پر کھڑی ہے۔ لندن پلان عدم اعتماد سے شروع ہوا اور آج تک یہ کہانی چل رہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔
عمر ایوب نے اپنی تقریر میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی لندن پلان کا اعتراف کیا ہے۔ معیشت لندن پلان کی وجہ سے تتربتر ہوئی۔ بلوچستان اور کشمیر میں آگ لگی ہوئی ہے۔ عمر ایوب نے کہا کہ بلوچستان میں 20، 30 ہزار لوگوں کا روز افغانستان آنا جانا ہے۔ نگران حکومت نے چمن سرحد پر پاسپورٹ کی پابندی لگائی۔ محسن نقوی کوبلایا جائے۔ جو نفرت کے بیچ بوئےگئےاس کی فصل ہم آج کاٹ رہےہیں۔