پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نئے قرض پروگرام کے تحت تعارفی سیشن ختم

13 May, 2024 | 12:11 PM

Ansa Awais

(وقاص عظیم)پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نئے قرض پروگرام کے تحت تعارفی سیشن ختم ہوگیا۔

 تعارفی سیشن کے بعد آئی ایم ایف وفد کے اراکین وزارت خزانہ سے واپس چلے گئے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات تقریبا ًدو ہفتے تک جاری رہیں گے،نئے قرض پروگرام کے علاوہ نئے مالی سال کے بجٹ پر بھی مشاورت کی جائے گی۔پاکستان آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر سے زائد کے بیل آؤٹ پیکیج کیلئے پر امید ہے۔آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلیٹی قرض پروگرام کیلئے ورکنگ پیپر تیار کیا گیا ہے۔

 تعارفی سیشن میں  پاکستان کی طرف سے وزیرخزانہ، سیکرٹری خزانہ،  چیئرمین ایف بی آر  اورگورنراسٹیٹ بینک موجود تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ وفاقی بجٹ کیلئے اہم اہداف طے کیے گئے جب کہ اس دوران فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ مالی سال کے دوران  حکومت اسٹیٹ بینک سے  قرض نہیں لے گی۔

 نجی ٹی وی کےذرائع کے مطابق وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف نے بیرونی ادائیگیاں بلا تاخیر اور بروقت ادا کرنے پر  اتفاق کیا ہے، یہ بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس ریفنڈ ادائیگیاں بروقت کرنے کا پابند ہوگا جب کہ زرمبادلہ ذخائربہتر بنانے اور ادائیگیوں کیلئے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز جاری کیے جائیں گے، درآمدات پرپابندی نہیں ہوگی  اورانٹرنیشنل ٹرانزیکشنز کیلئے بھی پابندی عائد نہیں کی جائےگی۔

 ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ اور وزارت توانائی کی معلومات آئی ایم ایف کو بھیجی جائیں گی،  آئی ایم ایف،  ایف بی آر، شماریات بیورو اور  مارکیٹ بیسڈایکسچینج ریٹ کی معلومات لےگا۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات تقریباً دو ہفتے تک جاری رہیں گے، پاکستان آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر سے زائد کا بیل آؤٹ پیکج  حاصل کرنے کیلئے پر امید ہے۔ 

 واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے کہا ہے کہ وہ ایف بی آر اور کابینہ کے ٹیکس مراعات دینے کے صوابدیدی اختیارات کو منسوخ کرے اور این جی اوز اور خیراتی تنظیموں کے ساتھ ساتھ ٹیکس شدہ پنشنرز کے ٹیکس قوانین میں تبدیلی لائے۔ پنشن پر آئی ایم ایف نے سفارش کی ہے کہ پنشن کی شراکت یا فوائد پر ٹیکس لگایا جائے،  اس مقصد کے لیے آئی ایم ایف ورکرز کی شرکت کے فنڈز میں رضاکارانہ ادائیگیوں کی کٹوتی کے فائدے اور پنشن کی چھوٹ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور بیان کردہ متبادل میں سے ایک کو لاگو کرکے ان پر ٹیکس لگانا چاہتا ہے۔ 

 آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ٹیکس مراعات ان معاملات تک محدود رہیں جہاں ان کے معاشی فوائد، روزگار اور معیشت میں ویلیو ایڈیشن کی صورت میں، جو بجٹ کی لاگت سے زیادہ ہوں۔ آئی ایم ایف نے انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) میں تمام ٹیکس مراعات ختم کرنے کی تجویز دی ہے، سوائے ان کے جو پاکستان قانونی طور پر فراہم کرنے کا پابند ہے یا اس کی واضح پالیسی وجوہات ہوں جیسے کہ اضافی آمدنی پر ٹیکس لگانے سے روکنا، اس سے اضافی محصول میں جی ڈی پی کا 0.2 فیصد حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 

 آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کے سامنے اپنے تخمینے پیش کر دیئے، ٹیکس ترغیبات اور ٹیکس پالیسی کے متعلقہ شعبوں کا بہتر انتظام کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے صنعتی اداروں کے لیے ٹیکس مراعات دینے کے لیے ایف بی آر کے صوابدیدی اختیارات اور ٹیکس مراعات دینے کے لیے کابینہ کے صوابدیدی اختیار کو منسوخ کرنے کی سفارش کی ہے۔

 آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے کہا ہے کہ وہ صوبوں کے ساتھ زرعی انکم ٹیکس کی ٹیکس کی شرح اور بنیاد  کو وفاقی سطح پر لاگو ہونے والے ٹیکس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے امکان پر بات کرے، مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے چودہویں شیڈول کے تحت موجودہ ایس ایم ای ٹیکس فریم ورک کو منسوخ کریں اور تمام مینو فیکچررز پر ٹیکس لگائیں، تعمیراتی شعبے کے لیے خصوصی ٹیکس نظام کو عملی طور پر جلد از جلد ختم کریں اور اس شعبے کو معیاری انکم ٹیکس نظاموں کے تابع کریں۔ 

مزیدخبریں