(قیصر کھوکھر) پنجاب کی افسر شاہی آج کل عجب کنفیوژن کا شکار ہے اور اندرخانے پی ٹی آئی سے رابطے کی کوششوں میں ہے۔ کہا اور سنا جا رہا ہے کہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب اگلا اقتدار پی ٹی آئی کو ملے گا ،جس کے بعد سے کئی ارکان اسمبلی اور طوطا چشم سیاستدانوں نے اپنی اپنی وفاداریاں تبدیل کرنا شروع کر دی ہیں۔
سیاستدانوں کی طرح بیوروکریسی میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ کئی افسران نے نگران حکومت کے آنے سے قبل ہی کھڈے لائن کی پوسٹنگ لینے کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں ۔سیاستدانوں کی طرح کئی افسران نے بھی پی ٹی آئی سے رابطے تیز کر دیئے ہیں اور اپنے اپنے طور پر ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دیئے ہیں تاکہ اپنا مستقبل محفوظ کیا جا سکے اور اگلی نئی حکومت کے آتے ہی اپنی نوکری پکی کی جا سکے۔ نوکر شاہی بھی ایک پیشہ ور سول سروس کی بجائے ایک سیاسی جماعت بن گئی ہے جو کہ سیاسی انداز میں سوچتی ہے اور سیاسی اندازمیں ہی کام کرتی ہے اور جیسے جیسے عمران خان کی پنجاب اور مرکز میں شہرت بڑھتی جا رہی ہے اور مسلم لیگ ن کی شہرت کا گراف گر رہا ہے اب مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک افسران پریشان ہیں کہ اگلا اقتدار کس کو ملتا ہے اور وہ کس کے ساتھ تعلق جوڑیں۔ اس وقت پنجاب اور وفاق کے اکثر افسران غیر جانبدار امیج رکھنے کی بجائے کسی نہ کسی سیاسی شخصیت کا لیبل ان پر لگا ہوا ہے۔
پنجاب میں افسران کا ایک ڈی ایم جی ن اور اتفاق سول سروس کے نام سے گروپ پیدا ہو چکا ہے۔ کئی افسران اپنے پیشہ کے ساتھ کم وفادار اور مسلم لیگ ن کے وفادار زیادہ ہیں۔ ایک افسر صرف اور صرف اپنے کاز اور ریاست کے ساتھ وفادار ہونا چاہیے یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ وہ برسراقتدار حکمرانوں کے پیچھے لگ جائیں اور ریاست کی بجائے حکومت کے طرفدار ہوں۔ پنجاب میں بااثر اسامیوں پر بیٹھے افسران اس وقت سخت پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ اگر پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ افسران یا تو ملزم ٹھہرائے جائیں گے یا یہ موجودہ حکمرانوں کیخلاف سلطانی گواہ بن جائیں گے۔ ماضی میں کئی افسران حکمرانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔
ڈاکٹر توقیر حسین شاہ ایک آﺅٹ سٹینڈنگ افسر ہیں۔ لیکن آج کل وہ شریف خاندان کی قربت کی وجہ سے زیر عتاب ہیں۔وہ قوم کا اثاثہ ہیں، قوم کو انہیں بچانا چاہیے ۔ اس وقت پریشانی یہ ہے کہ کہیں پنجاب میں مخالف حکومت برسراقتدار نہ آ جائے، تو اس صورتحال میں ان کا کیا بنے گا؟ وفاق اور پنجاب میں کسی ایک جگہ مسلم لیگ کی حکومت قائم ہونے پر یہ اپنی پناہ ڈھونڈ لیں گے۔جس افسر نے میٹرو ٹرین یا میٹرو بس بنائی ہے اور اس پراجیکٹ میں جو بے قاعدگیاں ہوئی ہیں ان کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا یہ بے قاعدگیاں حکمرانوں کے کہنے پر کی گئیں یا افسران نے اپنے طور پر کک بیک کی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی مخالف حکومت آنے پر مسلم لیگ ن کے ہم خیال افسران کا آڈٹ ہوگا اور احتساب بھی ہوگا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے کیا کیا غلط کیا اور کہاں کہاں کرپشن ہوئی ، اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اور کون کون افسر احتساب کی زد میں آئیں گے ؟اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے نوکر شاہی نے اپنے تیور بدلنے شروع کر دیئے ہیں۔
ایک سرکاری ملازم کو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہیے اور حکومتی پالیسیوں پر عمل کرنا چاہیے اور خاموشی سے سول سرونٹ کے رولز اینڈ ریگولیشن کو فالو کرنا چاہیے اور کسی بھی صورت میں حد سے بڑھ کر اپنی سیاسی جماعت یا حکمرانوں کے ساتھ وفاداری ہرگز نہیں دکھانی چاہیے تاکہ اگر مخالف حکومت آئے تو اس نظام کا بھی یہ حصہ بن سکیں۔ اور اس طرح عوام یہ جاننے میں حق بجانب ہیں کہ نوکر شاہی کو سیاسی کس نے بنایا اور کیوں بنایا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر ایک کمیشن بننا چاہیے کہ سرکاری مشینری کو غیر جانبدار رکھنے سے ملک ترقی کرتا ہے ۔ کشمیری افسران بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا اگلی حکومت میں کیا مستقبل ہوگا۔ لیکن کئی افسران میں یہ بھی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ حکومت بدلتے ہی اپنے تیور بدل کر نئی حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری ظاہرکر دیتے ہیں اور ماضی کی حکومت کے تمام راز اگل کر دوبارہ نئے سیٹ اپ میں بھی اہم ترین اسامیوں پر تعینات اور برا جمان ہو جاتے ہیں۔
حالات کوئی بھی ہوں، اقتدار کسی کا بھی ہو اس ملک میں وہ افسر بہترین حالات میں ہونگے جو اپنی سروس کے دوران غیر جانبدار رہے اور انہوں نے غیر جانبداری سے نوکری کی اور کسی بھی شخصیت یا سیاسی پارٹی کا حصہ نہ بنے۔ غیر جانبدار ی ایک اہم ہتھیار ہوتا ہے جس سے کو ئی بھی ملک اور معاشرہ ترقی بھی کر سکتا ہے اور ہر طبقہ فکر میں مقبول بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب نوکرشاہی کے سیاسی ہونے کے حوالے سے بھی خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے خود بیوروکریسی کوفیصلہ کرناچاہیے اور افسران کو سوچناچاہیے کہ وہ وقتی فائدے کیلئے کسی حکومت کی کشتی میں سوار نہ ہو جائیں بلکہ غیر جانبداررہ کر عزت سے اپنی ملازمت کریں۔ اس میں سب کی بہتری ہے، نظام کی بھی اور افسران کی بھی، اب اگر چند افسران لیگ کی حکومت کے”پیاروں“ میں شمارنہ ہوتے آج بے فکری سے نوکری کررہے ہوتے مگر حکومت جاتے ہی انہیں اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اس حوالے سے بیوروکریسی کو چاہیے کہ اپنا ایک ضابطہ اخلاق تیار کرلیں اوریہ ضابطہ اخلاق وہ اپنے طورپرتیارکریں جس کے ایسے ایس او پیز بنائے جائیں کہ افسران سیاسی نہ ہوں۔ جب نوکرشاہی غیر سیاسی ہوگی تونظام بہتراندازمیں چلے گااورملک بھی ترقی کرےگا۔