ٹرمپ ٹیرف فری ٹریڈ کے پورے فریم ورک کیلئے خطرہ  

13 Mar, 2025 | 07:33 PM

Waseem Azmet

سٹی42:  امریکہ کی طرف سے سٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے محصولات عالمی منڈیوں میں صدمے کی لہریں بھیج رہے ہیں اور اہم تجارتی شراکت داروں بشمول کینیڈا، میکسیکو اور یورپی یونین کے امریکہ کے ساتھ تناؤ کو بڑھا رہے ہیں۔

کچھ ممالک جوابی ٹیرف کی صورت میں جواب دے رہے ہیں، دوسرے  صدر ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کر کے چھوٹ کی تلاش میں ہیں، اور کچھ 25 فیصد ٹیرف سے نکلنے کے لیے بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تو، تجارتی جنگ کو کون بڑھا رہا ہے، کون اس سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے، اور ان دھاتوں پر انحصار کرنے والی صنعتوں کے لیے اس کے کیا امپلی کیشن ہیں۔ 

امریکہ کو سٹیل اور ایلومینیم کون فراہم کرتا ہے
انٹرنیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن کے مطابق، کینیڈا، برازیل، اور میکسیکو امریکہ کو سٹیل  سپلائی کرنے والے تین بڑے ملک ہیں،  کینیڈا، برازیل اور میکسیکو سے  بھیجا گیا سٹیل مارچ 2024 اور جنوری 2025 کے درمیان امریکہ  کی امپورٹس کا  تقریباً 49 فیصد   ہیں۔ سرکردہ سپلائرز جنوبی کوریا، ویت نام، جاپان، جرمنی، تائیوان، نیدرلینڈز اور چین ہیں، جو مل کر امریکی سٹیل کی درآمدات کا 30 فیصد بناتے ہیں۔

آسٹریلیا امریکہ کو سٹیل اور ایلومینیم دونوں ایکسپورٹ کرتا ہے، وہ بھی ٹرمپ ٹیرف کی زد میں ہے لیکن آسٹریلیا  امریکہ پر کوئی جوابی ٹیرف نافذ کرنے کی طرف نہیں جا رہا۔

امریکہ کی سٹیل امپورٹ میں کینیڈا - 16 فیصد،برازیل - 14 فیصد، میکسیکو - 9 فیصد، جنوبی کوریا - 8 فیصد، چین - 2 فیصد بھیج رہے ہیں۔

ایلومینیم کے لیے سب سے بڑے سپلائرز کینیڈا، متحدہ عرب امارات، روس اور میکسیکو ہیں۔ کینیڈا غالب سپلائر ہے، جو تقریباً 40 فیصد امریکی ایلومینیم درآمدات کا ذمہ دار ہے، اس کے بعد متحدہ عرب امارات، روس اور میکسیکو ہیں۔

خود امریکہ میں مینوفیکچرنگ مین استعمال ہونے والے سٹیل اور ایلومینیم پر بھاری ٹیرف کا نفاذ امریکہ میں  مینوفیکچرنگ کی کاسٹ بیتھے بٹھائے  25 سے کہیں زیادہ بڑھا دے گا۔ 

امریکہ میں مینوفیکچررز اور صارفین پر بڑے پیمانے پر اثر پڑے گا کیونکہ سٹیل اور ایلومینیم گھریلو آلات، کاروں، ہوائی جہازوں، فونز اور عمارتوں سمیت دیگر بنانے میں بہت اہم ہیں۔

سٹیل تعمیرات، مینوفیکچرنگ، نقل و حمل اور توانائی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا مواد ہےْ

تعمیراتی شعبہ تمام اسٹیل کی درآمدات کا ایک تہائی استعمال کرتا ہے۔ اس سے ہوائی اڈوں، اسکولوں اور سڑکوں سمیت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ہوگا۔

ایلومینیم، ہلکا پھلکا اور  کم مزاحم  دھات ہونے کی وجہ سے، آٹوموٹیو اور ایرو اسپیس صنعتوں کے ساتھ ساتھ کھانے اور مشروبات کی پیکیجنگ کے لیے بھی ضروری خام مال ہے۔

امریکہ خاص طور پر ایلومینیم کی درآمدات پر مانحصار کرتا ہے، ملک میں استعمال ہونے والی ایلومینیم کا تقریباً نصف غیر ملکی ذرائع سے آتا ہے۔

امریکی محکمہ تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال سٹیل اور ایلومینیم کی امریکی امپورٹس بالترتیب 31 بلین ڈالر اور 27 بلین ڈالر تھیں۔

کینیڈا کی ایشیا پیسفک فاؤنڈیشن میں تحقیق اور حکمت عملی کی نائب صدر وینا نادجیبلا نے کہا کہ یہ محصولات خاص طور پر نقصان دہ ہیں کیونکہ "ان کے لیے بہت کم اقتصادی یا حقیقی قومی سلامتی کا جواز موجود ہے"۔

یہ ٹیرف  بنیادی طور پر امریکی صارفین اور اہم تجارتی شراکت داروں کے لیے معاشی درد پیدا کریں گے۔

مسلمہ تجارتی اصولوں کو نطر انداز کرتے ہوئے، امریکہ "مؤثر طریقے سے دیگر ممالک کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ شمالی امریکہ اور اس سے باہر اسٹاک مارکیٹوں اور سرمایہ کاروں اور صارفین کے اعتماد کے لیے تباہ کن اثرات کے ساتھ جواب دیں۔"

ٹرمپ ٹیرف کی زد مین آئے ملک کیسے جواب دے رہے ہیں

آسٹڑیلیا اور چند دیگر ملکوں کو چھوڑ کر جن کے امریکہ کے ساتھ باہمی روابط زیادہ پیچیدہ انحصار پر مبنی ہیں، ٹرمپ ٹیرف کی زد مین آنے والے تقریباً سبھی ملک  جواب دیتے ہوئے امریکہ کے لئے تجارتی سختیاں پیدا کر رہے ہیں۔


کینیڈا
امریکہ کو سٹیل اور ایلومینیم فراہم کرنے والے سب سے بڑے  ملک کینیڈا نے ٹمپ ٹیرف کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ٹیرف کو "غیر منصفانہ" اور "گونگا کام" قرار دیا ہے اور امریکہ سے کینیڈا کیلئے امپورٹس پر ٹرمپ ٹیرف جتنی ہی مقدار میں ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان کیا لیکن بعد میں ٹرمپ نے کینیڈین ایلیومینیم پر ٹیرف 25 فیصد سے بڑھا کر  50 فیصد کرنے کا اعلان کر ڈالا۔

کینیڈا نے 20.6 بلین ڈالر مالیت کی امریکی اشیا پر 25 فیصد جوابی ٹیرف کا اعلان کیا، جس میں اسٹیل پر 8.8 بلین ڈالر اور ایلومینیم کی درآمدات میں 2 بلین ڈالر شامل ہیں۔ اس نے امریکی اشیا جیسے کہ کمپیوٹر اور سرورز، ڈسپلے مانیٹر، واٹر ہیٹر اور کھیلوں کے آلات سمیت دیگر پر تقریباً 10 بلین ڈالر کا اضافی ٹیرف بھی لگایا ہے۔

یہ انسدادی اقدامات جمعرات سے نافذ العمل ہوں گے۔

"ہم اپنے کارکنوں کے لیے کھڑے ہونے جا رہے ہیں، اور ہم اس بات کو یقینی بنانے جا رہے ہیں کہ امریکی عوام یہ سمجھیں کہ ان کی قیادت کے فیصلوں کے نتائج برآمد ہوں گے،"پرائم منسٹر ٹروڈو نے کہا۔

مارک کارنی، جو ٹروڈو کے بعد کینیڈا کے وزیرِ اعظم ہوں گے، انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ جب تک امریکہ منصفانہ تجارتی طریقوں کا عہد نہیں کرتا، ہم ٹیرف کو برقرار رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ "تجارت کے لیے بہت زیادہ جامع نقطہ نظر" اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مارک کارنی نے "ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے بھری دنیا میں، یہ ہمارے مشترکہ مفاد میں نہیں ہے کہ ہم اپنی معیشتوں پر محصولات کا بوجھ ڈالیں۔" 

کینیڈا کے تازہ ترین ٹیرف 20.8 بلین ڈالر کی امریکی درآمدات پر 25 فیصد جوابی محصولات کے علاوہ ہیں۔  جو 4 مارچ کو ٹرمپ کے سابقہ ​​محصول کے جواب میں عائد کیے گئے تھے ۔

 کینیڈٓ کے صوبہ اونٹیریو کی صوبائی حکومت امریکہ کی تین ریاستوں کو بجلی کی سپلائی پر ایکسپورٹ ٹیرف بھی نافذ کرنے کا اعلان کر چکی ہے تاہم مقامی قانونی پیچیدگیوں کے سبب اس پر عمل درآمد ابھی شروع نہیں ہوا۔

یورپی یونین
یورپی یونین نے 28 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کی امریکی اشیا  جن میں موٹر سائیکلیں، پی نٹ بٹر۔  جینز  اور دیگر کموڈٹیز شامل ہیں، ان پر ٹیرف لگانے اور دیگر ریگولیشنز لگانے کااعلان کیا ہے۔ یہ اقدامات دو مراحل میں ہوں گے:

فیز 1 (اپریل 1) – اسٹیل، ایلومینیم، بوربن، اور موٹرسائیکلوں  جیسی 7.8 بلین ڈالر  کی  امریکی مصنوعات پر پہلے سے معطل ٹیرف کو بحال کر دیا جائے گا۔

صدر ٹرمپ کی پہلی مصدارت کے دوران 2018 اور 2020 کے درمیان لگائے گئے کاؤنٹر لیویز کو بائیڈن انتظامیہ کے وائت ہاؤس مین آنے کے بعد معطل کردیا گیا تھا۔


فیز 2 (اپریل کے وسط سے) – امریکی برآمدات، جیسے پولٹری، ڈیری مصنوعات، پھل اور اناج پر19.6 بلین ڈالر  مالیت کے نئے محصولات متعارف کرائے جا رہے ہیں۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے متنبہ کیا ہے کہ یہ محصولات قیمتوں میں اضافہ کریں گے اور بحر اوقیانوس کے دونوں طرف ملازمتوں کو خطرہ  میں ڈالیں گے یعنی کام کم ہوں گے، نوکریاں بھی اسی تناسب سے کم ہوں گی۔ 

"ہمیں اس اقدام پر شدید افسوس ہے۔ ٹیرف ٹیکس ہیں۔ وہ کاروبار کے لیے خراب ہیں اور صارفین کے لیے اس سے بھی بدتر ہیں،" انہوں نے کہا، انہوں نے مزید کہا کہ EU "ہمیشہ مذاکرات کے لیے کھلا رہے گا"۔

میکسیکو
دیوہیکل ہمسائے امریکہ کے پڑوس مین رہنے پر مجبور میکسیکو  کی حکومت ٹرمپ ٹیرف سے بری طرح الجھ گئی ہے۔ میکسیکو کا ٹرمپ ٹیرف پر ردعمل ابھی تک واضح نہیں ہے۔

میکسیکو کی  صدر کلاڈیا شین بام ن اب تک مذاکرات پر انحصار کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ انتقامی ٹیرف صرف اس صورت میں لاگو کیا جائے گا جب مذاکرات ناکام ہو جائیں۔

تاہم، وہ پہلے ہی ٹرمپ کے ساتھ عارضی چھوٹ کا معاہدہ کر چکی ہیں، جس میں ٹرمپ کی پہلی مدت کے تحت دستخط کیے گئے US-Mexico-Canada Agreement (USMCA) تجارتی معاہدے کے تحت میکسیکو کی درآمدات کے لیے 2 اپریل تک استثنیٰ حاصل ہے۔ اپریک آنے تک غالباً میکسیکو کی حکومت کسی بھونچال مین الجھنے سے بچنا ہی چاہے گی لیکن اپریل اب پندرہ دن کی ہی دوری پر تو ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میکسیو کے  امریکہ بھیجی جا رہی وہ اشیا جو USMCA کی تعمیل نہیں کرتی ہیں وہ اب بھی نئے 25 فیصد ٹیرف کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہیں۔

یہ میکسیکو اور کینیڈا کے ٹیرف میں ایک ماہ کی تاخیر پر بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے دوران دونوں ممالک نے سرحدی حفاظتی اقدامات کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے میکسیکو پر اس وقت تک محصولات عائد کرنے کا وعدہ کیا جب تک وہ اپنی سرحدوں سے امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ کو روک نہیں دیتے۔

برازیل
ٹرمپ ٹیرف سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود، برازیل نے جوابی کارروائی کی بجائے  ٹرمپ حکومت کے ساتھ سفارت کاری کا انتخاب کیا ہے۔ برازیل کے حکام استثنیٰ حاصل کرنے کی امید میں واشنگٹن کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔

بائیں بازو کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا کی قیادت میں حکومت نے امریکہ کے "غیر منصفانہ" اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔

وزیر خزانہ فرنینڈو حداد نے بدھ کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ "صدر لولا نے ہمیں پرسکون رہنے کو کہا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ماضی میں ہم نے ایسے حالات میں بات چیت کی ہے جو موجودہ حالات سے بھی زیادہ ناموافق تھے۔"

جنوبی کوریا
ٹرمپ نے ثبوت فراہم کیے بغیر جنوبی کوریا پر امریکہ سے فائدہ اٹھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سیول کا اوسط ٹیرف چار گنا زیادہ ہے۔ آزاد تجارتی معاہدے کی وجہ سے دونوں قریبی اتحادیوں کے درمیان تجارت تقریباً ٹیرف سے پاک ہے۔

"اور ہم جنوبی کوریا کو فوجی اور بہت سے دوسرے طریقوں سے بہت زیادہ مدد دیتے ہیں۔ لیکن ایسا ہی ہوتا ہے،" ٹرمپ نے اس ماہ کے شروع میں امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران کہا۔

انہوں نے چِپس اور سائنس ایکٹ کو ختم کرنے کا بھی وعدہ کیا، جس کے تحت سام سنگ الیکٹرانکس سمیت کئی کوریائی کمپنیاں امریکی امداد حاصل کرتی ہیں۔

جنوبی کوریا نے بھی دیرینہ سٹریٹیجک اتحادی کے ساتھ  محاذ آرائی کے بجائے مذاکرات کا انتخاب کیا ہے۔ اس نے مقامی صنعتوں کے تحفظ کے لیے "مکمل ایمرجنسی رسپانس موڈ" کو بھی فعال کر دیا ہے۔

منگل کو جنوبی کوریا کے قائم مقام صدر چوئی سانگ موک نے کہا کہ ٹرمپ کی "امریکہ فرسٹ" پالیسی نے ان کے ملک کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

جنوبی کوریا کے حکام نے اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ ممکنہ چھوٹ پر بات چیت اور باہمی خدشات کو دور کرنے کے لیے فعال طور پر بات چیت کی کوشش کی ہے۔ تجارتی وزیر چیونگ ان کیو 13-14 مارچ کو واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کرنے والے ہیں، جس کا مقصد باہمی محصولات اور سرمایہ کاری کے مواقع پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔

اس دورے کا مقصد ٹرمپ انتظامیہ کی تجارتی پالیسی کی رپورٹ پر اثر انداز ہونا اور محصولات پر جنوبی کوریا کا موقف پیش کرنا ہے۔

چین
بیجنگ امریکہ کو سٹیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک نہیں ہے۔ تاہم، اس نے محصولات کو براہ راست اقتصادی حملے کے طور پر لیا ہے اور جارحانہ انداز میں جواب دیا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماو ننگ نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ اقدام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کی خلاف ورزی ہے اور چین جو دنیا کا سب سے بڑا سٹیل پیدا کرنے والا ملک اور دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یاد دلایا، "تجارتی جنگ یا ٹیرف کی جنگ میں کوئی نہیں جیتتا"۔

چین پہلے ہی ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ 20 فیصد بلینکٹ ٹیرف کے جواب میں امریکہ پر محصولات لگا چکا ہے۔

ٹیرف کی ہوس  اتحادیوں کے ساتھ امریکی تعلقات کو کیسے متاثر کرے گی
آسٹریلیا، امریکہ کا ایک اور اہم اتحادی جو ٹرمپ کے محصولات سے متاثر ہوا ہے، آسٹریلیا کے پرائم منسٹر نے  کہا کہ وہ جوابی کارروائی نہیں کر رہے۔ وزیر اعظم انتھونی البانی نے ٹیرف کو "مکمل طور پر غیر منصفانہ" قرار دیا، لیکن انہوں نے انتقامی ٹیرف کو مسترد کر دیا کیونکہ اس سے بالآخر آسٹریلوی صارفین متاثر ہوں گے۔

آسٹریلین حکومت نے ٹرمپ کے پہلے دور میں سٹیل اور ایلومینیم ٹیرف سے چھوٹ حاصل کی تھی۔ شاید اب بھی وہی کسی ایسے ہی معجزہ کا انتظار کریں گے۔

 ایک عام رائے جو ابھر رہی ہے وہ یہ ہے کہ ٹرمپ ٹیرف  امریکہ کو  "اپنے قریبی اتحادیوں کے لیے ایک ناقابل اعتماد پارٹنر" بنا رہے ہیں۔

ٹرمپ ٹیرف کے جھٹکے کھانے کے بعد کینیڈا، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک  امریکہ پر انحصار کا سبب بننے والی "اپنی کمزوریوں کو کم کرنے کی کوشش کریں گے" اور تجارتی شراکت داریوں کو متنوع بنانے جیسی حکمت عملیوں پر عمل کریں گے۔

گلوبل معیشت کیلئے ری سیشن کا خطرہ

 ٹرمپ ٹیرف کسی کو پسند نہین لیکن اس کا اندھا دھند جواب دینا بھی کوئی راستہ نہیں؛ بڑی معیشتیں کسی بھی وججہ سے ٹیرف مین اضافہ کریں، اس کا اثر خود ان معیشتوں پر بھی ہو گا اور  ٹیرف میں اضافے آخر کار عالمی تجارتی سست روی کا خطرہ بڑھائیں گے۔ 

ٹرمپ ٹیرف کے امپلی کیشنز کی مکمل پیمائش ابھی ممکن نہیں لیکن یہ کھلی حقیقت ہے کہ یہ ٹیرف کھلی تجارت کے پورے فریم ورک کیلئے خطرہ  ہیں۔  ان ٹیرفس نے چند ہی ہفتوں میں  دنیا کی معاشی ترقی اور استحکام کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔"

مزیدخبریں