صحافت میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کا سلسلہ بہت پرانا ہے ۔ پاکستان جیسے اسٹیبلشمنٹ زدہ ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں ہر جگہ کسی نہ کسی حد تک ایسا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں ماضی میں بعض صحافیوں کی شناخت ہی یہی رہی ۔ ایک نمایاں مثال کامران خان کی ہے ۔ جنگ اور دی نیوز میں ان کی خبر شائع ہونے کا ایک ہی مطلب ہوتا تھا کہ یہ فوج کا موقف ہے ۔ کارستانیاں جو بھی ہوں مگر کامران خان باقاعدہ صحافی بھی ہیں ، شاید اسی لئے ناقدین نے بھی انہیں اس پوزیشن پر قبول کرلیا تھا ۔ جنرل مشرف کے دور میں امریکہ نے پاکستان میں چینلوں کا اتوار بازار لگا یا تو جہاں بیرون ملک سے ڈائریکٹ لائن لینے والے صحافی بن کر میدان میں اتر آئے وہیں لوکل ٹائوٹوں کی بھی بھرمار ہوگئی ۔ پھر اس کے بعد معیار گرتا چلا گیا اور جنرل باجوہ کا دور آنے تک تو کچرا ہی ہوگیا ۔ ایٹمی طاقت کا فوجی سربراہ اپنی صبح کا آغاز جس” جینئس “ یو ٹیوبر کے وی لاگ سن کر کرتا تھا اس کا نام خود جنرل باجوہ کی زبان سے سن کر لوگ حیرت زدہ رہ گئے ۔ اس سے پہلے جب یہ طے کیا گیا کہ چینلوں پر جھوٹی خبروں کے ذریعے سیاستدانوں پر لعن طعن کرنی ہے تو صحافی اور غیر صحافی پیرا شوٹرز کو پر چیوں پر لکھی ہوئی گالیاں سکرینوں پر پڑھنے کا حکم دیا گیا ۔ ایسا کرنے پر نہ صرف شاباش بلکہ بھاری تنخواہوں والی نوکریاں فل گارنٹی کے ساتھ پیش کی جاتی رہیں ۔ سوشل میڈیا بریگیڈ کو ٹرینڈ کرکے چھوڑا گیا ۔ یو ٹیوب چینل بنائے گئے ، ان کے لیے بڑے پیمانے پر سبسکریشن کا اہتمام کیا گیا تاکہ پراپیگنڈا دور تک جانے کے ساتھ ڈالر بھی برستے رہیں ۔ میڈیا کے ذریعے بہت بڑی گمراہی پھیلانے کے بعد پچھلے دنوں ایسے چند عناصر کو چینلوں سے آف ائر کیا گیا ۔ لوگ طنز کررہے ہیں کہ کمال ہے اتنی جلدی خیال آگیا ؟ اسی کیٹیگری کے کئی اور ہیں جو اب بھی سکرینوں پر’’ ڈیوٹی “ کر رہے ہیں ۔ اپنے میڈیا کارندوں کو نوازنا یا لتاڑنا اگرچہ’’ ادارہ ہذا “ کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اس پر تبصرہ تو کیا جاسکتا ہے ۔ آج کے دن تک یہی نوٹ کیا گیا ہے کہ کوئی نیا چینل آئے، بھرتیوں کا میرٹ یوتھیا ہونا ہے ۔ طاقتور حلقے کسی پراکسی کو آگے رکھ کر نئے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم بنائیں تو وہ بھی ایسے ہی نمونوں سے بھر دئیے جاتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت سوشل میڈیا پر لوگوں کو الجھایا جارہا ہے ۔ جیسے ان دنوں ایک لڑائی چل رہی ہے ،زبان کا تیز ایک خود ساختہ دینی سکالر ، پی ٹی آئی کے دو میڈیا’’ٹائیگروں “ کو لتاڑ رہا ہے ۔وہ آگے سے جوابی الزامات لگا رہے ہیں ، ان میں سے ایک’’ ٹائیگر “ نے گھٹیا سٹیج ڈراموں کے لچر پن کو ٹی وی سکرینوں کے ذریعے گھر گھر پہنچانے کی خباثت پھیلائی ، بعد میں اسی نے ایک نئے چینل کے نام پر اتنا مال کمایا کہ منصوبے میں شامل افسران بھی دنگ رہ گے ۔ وہ چینل تو نکلنے سے پہلے ہی بند ہوگیا لیکن اتنی زیادہ رقم ہڑپ کی جاچکی تھی کہ ایک اعلیٰ افسر نے جو آج بھی ٹاپ پوزیشن پر ہے ،زچ ہوکر کہا میرا دل کرتا ہے فراڈیوں کو پکڑ کر الٹا لٹکا دوں ۔ کہا جاتا ہے کہ قانونی کارروائی کا پلان بنا لیکن پھر وسیع تر قومی مفاد میں’’ مٹی پاؤ “ پالیسی اختیار کرلی گئی ۔ دوسرا” ٹائیگر “ وہ ہے عام رپورٹر سے ارب پتی بنا ، نو مئی کے بعد پکڑا گیا ، کچھ عرصے بعد برآمد ہوا تو فلمی انداز سے ایک ترتیب کے ساتھ اس کی صحت زیان اور سرگرمیاں بحال ہوتی چلی گئیں - پھر اسے یورپ کی محفوظ فضاؤں میں پہنچا دیا گیا ۔ اسکے متعلق شیر افضل مروت کا دعویٰ ہے کہ وہ اعلیٰ پولیس افسروں اور بیوروکریسی سے مل کر لمبا مال کماتا رہا ۔ وہ تمام افسر یہیں موجود ہیں اور اہم عہدوں پر ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ظاہر ہے جو یو ٹیوبر باجوہ ، فیض ، آصف غفور کا ، کارندہ ہوگا ، کونسا کرپٹ افسر ایسا ہوگا جو اس کے ساتھ مل کر وارداتیں کرنے کا سنہرا چانس مس کرے گا ۔ اس طرح کے نیٹ ورک سے منسلک تمام وارداتیے ہر طرح کے احتساب سے بھی بالاتر ہو جاتے ہیں ۔ایک سٹیج ڈرامے میں اداکار ناصر چنیوٹی نے ساتھی اداکار امانت چن سے کہا تھا کہ رنگ تو میرا بھی کالا ہے لیکن تمہارا تو بیڑہ ہی غرق ہے ۔ ٹاؤٹ تو پہلے بھی صحافت کا ستیا ناس کرتے تھے لیکن جنرل باجوہ کے دور میں تو سوا ستیا ناس ہوگیا ، ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ ابھی ففتھ جنریشن وار کا گند سمیٹا نہیں جارہا اوپر سے فیملی وی لاگرز اور ٹک ٹاکرز کی شکل میں سیکستھ جنریشن وار کا نیا گٹر ابل پڑا ہے ۔
ٹاؤٹ ، سوشل میڈیا، نیا گٹر
حروف : نوید چودھری
13 Mar, 2025 | 05:23 PM