سٹی 42:مردہ گھوڑے میں ایک بار پھر روح پھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے، پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب صوبے کا بل قومی اسمبلی میں لانے کا اعلان کیا ہے،وزیر اعظم نے بھی اس حوالے سے دلچسپی لینی شروع کردی ہے،وزیر اعظم نے فوری قانون سازی کرنے کا حکم دیا ہے ساتھ ہی ساتھ جنوبی پنجاب کا صوبائی سیکرٹریٹ بہاولپور میں بنانے کا کہا ہے۔جبکہ عمران خان کے بعد اپنے آپ کو وزیر اعظم کا امیدوار سمجھنے والے شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ فی الحال مجوزہ صوبے کے انتظامی سیکرٹریٹ ملتان اور بہاولپور ہوں گے،ایک سیکرٹری ملتان تو دوسرا بہاولپور بیٹھے گا۔ پی ٹی آئی یہ سہرا اپنے سر سجاتی ہے تو اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔ فی الحال تو یہ کامیابی جنوبی پنجاب میں سب سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دے کر سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حکومت کو اچانک سے جنوبی پنجاب کا خیال کیوں آگیا؟ ایک صوبہ دو سیکرٹریٹ ،عوام کے مسائل حل ہوپائیں گے یا بڑھیں گے؟ کیا پی ٹی آئی صوبہ بنانے کی یہ چوٹی سر کرلے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور کے دماغ میں جنم لے رہے ہیں۔عوام اس وقت مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں،سرویز کے مطابق اس وقت فضا حکومت کے حق میں نہیں بلکہ مخالفت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے،ایسے میں تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتی ہے اور اس سے پہلے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو کچھ نہ کچھ دینا چاہتی ہے،دوسرا اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے تگ و دو میں ہے۔
نئے صوبے کی تشکیل میں کئی طرح کی رکاوٹیں بھی ہیں جن میں سرفہرست تحریک انصاف کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کا نہ ہونا ہے، اسی لیے انہیں دوسری سیاسی جماعتوں کی مدد درکار ہو گی جن میں مسلم لیگ ن سر فہرست ہوگی؛ کیونکہ آئین کی دفعہ 239 کے تحت نئے صوبے کی تشکیل کےلیے ہونے والی قانون سازی کو صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی حمایت لازم ہے۔ اور اسی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظوری لازم ہے۔ اس کے بعد ہی نیا صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔
پنجاب میں کم ازکم 245 ارکان کی حمایت چاہیے جب کہ حکومتی اتحاد میں 188 ایم پی ایز ہیں۔ اس لیے جنوبی پنجاب صوبے کا قیام پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ ن کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ آئین کی دفعہ 239 کے تحت نئے صوبے کی تشکیل کےلیے ہونے والی قانون سازی کو صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی حمایت لازم ہے۔ مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں تین انتظامی ڈویژن شامل ہوں گے جن میں ملتان، ڈی جی خان اور بہاولپور شامل ہیں اور یہ تینوں ڈویژن گیارہ اضلاع ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور، بہاولپور، رحیم یار خان اور بہاولنگر پر مشتمل ہیں۔
ان اضلاع کی حلقہ بندیوں کے مطابق مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں صوبائی اسمبلی کی 95 اور قومی اسمبلی کی 46 سیٹیں آتی ہیں۔ موجودہ پنجاب اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 371 ہے جن میں 297 منتخب ایم پی ایز اور مخصوص نشستوں پر 66 خواتین اور 8 غیر مسلم ایم پی ایز شامل ہیں۔ اگر نئے صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے گا تو اس میں منتخب ایم پی ایز کو اپنے علاقوں کی بنیاد پر اپنے اپنے متعلقہ صوبے کی اسمبلی میں جانا ہوگا۔
اس کے بعد وہاں کی نئی پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کے ایم پی ایز اسمبلی میں آئیں گے۔ نئے صوبے جنوبی پنجاب اور پنجاب کی پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح سے ہو گی:یہاں 95 ایم پی ایز میں سے 53 کا تعلق تحریک انصاف سے، 29 کا مسلم لیگ ن سے، پیپلز پارٹی سے 5، مسلم لیگ ق سے 2 جبکہ ایک آزاد ایم پی اے ہیں۔ اس طرح اس نئے صوبے میں تحریک انصاف کے حکومتی اتحاد کے پاس 95 میں سے 55 سیٹیں ہیں۔ اس لیے یہاں کا وزیراعلی اور صوبائی حکومت آسانی سے تحریک انصاف کو مل جائے گی۔ لیکن دوسری طرف جنوبی پنجاب کے علاوہ رہ جانے والے پنجاب کی نئی حکومت پر تحریک انصاف کو سخت مشکلات کا سامنا ہوگا۔ یہاں پارٹی پوزیشن جنوبی پنجاب سے مختلف ہے جہاں 202 ایم پی ایز میں سے 97 کا تعلق مسلم لیگ ن جب کہ تحریک انصاف کے 87، مسلم لیگ ق کے 6، پیپلز پارٹی ایک، راہ حق پارٹی ایک اور دو آزاد ایم پی ایز ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اس وقت حکومتی اتحاد کے پاس 192 (182تحریک انصاف، 10 ق لیگ) اور اپوزیشن کے پاس 179 (مسلم لیگ ن 179، پیپلز پارٹی 7) سیٹیں ہیں، تین آزاد اور ایک نشست راہ حق پارٹی کے پاس ہے۔
تحریک انصاف اس معاملے میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تما م جماعتوں سے مدد کی اپیل کررہی ہے، جنوبی پنجاب صوبے کا قیام تمام جماعتوں کے انتخابی منشور میں شامل رہا ہے لیکن ہیئت میں اختلاف ہے،کچھ کا خیال ہے کہ ملتان اور بہاولپور کو الگ الگ صوبہ بننا چاہئے،کچھ تو الگ الگ سیکرٹریٹس کے قیام کے حق میں بھی نہیں۔نئے صوبے کے قیام کے حوالے عوام میں بھی بحث جاری ہے،سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے کہ بہاولپور کو سیکرٹریٹ بنایا گیا تو خانیوال اور وہاڑی کے اضلاع شامل نہیں ہوں گے۔
نئے صوبے کا قیام خود تحریک انصاف کیلئے نقصان دہ ہے،نئے صوبے کا ن لیگ اور ق لیگ کو فائد ہ ہوگا۔ جنوبی پنجاب کے الگ ہونے سے تحریک انصاف کی پنجاب اسمبلی میں اکثریت ختم ہوجائے گی جو اس کی حکومت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت یہ کام عام انتخابات سے چند ماہ قبل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت وعدہ کرکے پھنس گئی ہے، اگر وعدہ پورا کرتی ہے تو صوبائی حکومت ہاتھ سے جاتی ہے؛ یوٹرن لیتی ہے تو عوام کی اکثریت کا اعتماد کھو دے گی۔ آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی۔ حکومت کس میں چھلانگ لگاتی ہے؟ اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔فی الحال یہ اعلان ایشوز کو دبانے کا ایک حربہ لگتا ہے۔