بجٹ 25-2024: تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافے پر اعتراض مسترد ،زیادہ سے زیادہ ٹیکس 35 فیصد ہے:وفاقی وزیرخزانہ

13 Jun, 2024 | 01:54 PM

(وقاص عظیم) وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب کا کہناہے کہ بجٹ میں ٹیکسوں کا دائرہ بڑھایاہے،10فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو نا قابل برداشت ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافے پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس 35 فیصد ہے،نئے ٹیکسز کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا۔

 وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ بجٹ میں ٹیکسوں کا دائرہ بڑھایاہے،زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس سے کسی کو اختلاف نہیں،10فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو نا قابل برداشت ہے،غیر دستاویزی معیشت کو ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے ،اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹلائزیشن سے انسانی مداخلت اوررشوت کم ہوگی،پٹرولیم لیوی فوری نہیں مرحلہ وار بڑھائی جائےگی،عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کی قیمتوں کو مد نظر رکھا جائے گا ۔  تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس 35 فیصد ہے،نئے ٹیکسز کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا،تاجر دوست اسکیم جاری رہے گی ،31 ہزار تاجروں نے رجسٹریشن کرائی ہے،تاجروں پر 2022 میں ٹیکس لگ جانا چاہیے تھا ،نئے ٹیکسز لگانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

 ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بینکوں کے ساتھ تین اسکیمز جاری کرنے پر اتفاق ہوا،بینک زراعت ، آئی ٹی اور ایس ایم ایز کیلئے اسکیمز شروع کریں گے،ایگزیم بینکس ریفاننس اسکیم شروع کریں گا،حکومت کومہنگائی کا احساس ،عوام کو جلد آسانی ملے گی،تنخواہ دار طبقے کیلئے حکومت نے اچھا اقدام کیا،ٹیکس کے نظام کو جدید کررہے ہیں،وزیراعظم نے عوام کو ریلیف دینے کی ہدایت کی ہے،عوام دیکھیں گے فائلرز کو فائدہ ملے گا۔

بینکوں کے ساتھ تین اسکیمز جاری کرنے پر اتفاق ہوا ،بینک زراعت ، آئی ٹی اور ایس ایم ایز کے لیے اسکیمز شروع کریں گی ،ایگزیم بینکس ریفاننس اسکیم شروع کریں گی،حکومت جس جس سیکٹر سے نکل جائے اتنا ہی بہتر ہے،حکومت کو پرائیوٹ سیکٹر کو آگے لانے کیلئے ماحول دینا ہوگا،ٹیکسسز لیکج کو کم کرنے کیلئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لایا گیا،مقصد تمباکو،سیمنٹ سمیت ہر شعبے میں ٹیکس چوری روکنا تھا۔

 سیلز ٹیکس میں بہت بڑی لیکج ہے جس کیلئے ڈیجٹل کررہے ہیں،شہریوں کے لائف اسٹائل کا تمام ڈیٹا ہمارے پاس ہے،ڈیٹا کو کراس چیک کیا جائے گا اس کے بعد فیلڈ فارمیشن کو دیا جائے گا،جہاں تک ایس ایم ای کی بات ہے تو اس کی جیسی فنانسنگ ہونی چاہئے  ویسی نہیں ہوئی، چھوٹے کاروباری اداروں کے حوالے سے بینکوں کو محنت کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایک کریانے کی دوکان ہے کو ایک یا 3 لاکھ روپے دینے ہیں تو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا کاروبار جن بھی لوگوں کے ساتھ چل رہا ہے ان کو ری پیمنٹ ہورہی ہے یا نہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ گورنر اسٹیت بینک کے ساتھ مل کے پچھلے دو مہینے میں ہم نے پاکستان بینک ایسو سی ایشن کے ساتھ مل کے 3.4 میتنگز کی جن کی بنیاد پر بینکس 3 سیکٹر میں بینکس نے مخصوص اسکیم بنائی ہے کہ زراعت کی فنانسنگ کیسے بڑھانی ہے، آئی ٹی کی فنانسنگ کرنے ہیں اور ایس ایم ای کو کیسے فنانس کرنا ہے۔

 سیلری سلیب سے متعلق سوال پر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سیلری ٹیکس سے استثنٰی والی کیٹیگری کو برقرار رکھا گیا ہے، اسی طرح سے جو ٹاپ سلیب ہے، وہ بھی اسی طرح سے برقرار ہے، سیلری کلاس کے علاوہ پروفیشنلز کمیونٹی آتی ہے، اس کو تو ہم 45 فیصد پر لے گئے ہیں، سلیب میں رد و بدل ہے، مجموعی طور پر یہ نمبر بڑا نظر آتا ہے، انفرادی سطح پر دیکھیں تو اس میں اتنا بڑا بوجھ نہیں ہے۔ جہاں تک ریٹیلرز کا تعلق ہے، سارے جو اس شعبے سے منسلک ہیں، تو ابھی آپ نے پوچھا کہ بس یہی کلاس رہ گئی ہے جو آپ کے پاس چھوڑی گئی ہے تو اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اگر ہم اس سمت میں آگے نہیں بڑھیں گے تو کوئی بھی آجائے، اس کو یہی کرنا پڑے گا، اس لیے جو ہمارے ریٹیلرز، ہول سیلرز بھائی بہن ہیں ان کو نیٹ میں لانا ضروری ہے تاکہ بوجھ بانٹا جائے۔

 وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے یہ جو رجسٹریشن شروع کی وہ رضاکارانہ بنیاد پر کی اپریل میں، اور آپ سب لوگوں نے اسے سب سے بڑی ناکامی قرار دیا اور ٹھیک بھی کہا آپ لوگوں نے، ہم نے کہا تھا اپریل میں کہ اس کو خود رجسٹر کریں اور اب تو ایپ ہے اس کے ذریعے رجسٹریشن کرنی تھی تو صرف 75 لوگوں نے یہ کیا، یہ ہوتا ہے جب رضاکارانہ بنیاد پر کام ہو تو۔ پھر مئی میں ہمیں اس کو اس طرف لے کر جانا تھا تو 6 شہروں میں ایف بی آر کی ورک فورس کام پر لگی اور 31ہزار کے قریب ریٹیلرز رجسٹر ہوچکے ہیں اور ہم اسے جاری رکھیں گے کیونکہ جولائی سے ٹیکس کا اطلاق ہونا شروع ہوجائے گا۔

 وفاقی وزیر نے بتایا کہ یہ جو ٹیکس ہے یہ 2022 میں لگ جانا چاہیے تھا، ہمیں ریٹیلرز، ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لے آنا چاہیے تھا، ہمارے پاس اب چارہ کوئی نہیں ہے سوائے اس کو کہ ہم یقینی بنائیں کہ ان شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔

 غیر قانون کیش ٹرانزیکشن کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد اورنگزیب کا کہنا تھا یہ سب چیزیں ڈیجیٹلائزیشن اور غیر دستاویزی معیشت سے منسلک ہیں، اس وقت گردشی نقدی 90 کھرب ہے، تو اس لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ جتنی بھی پالیسی اقدامات ہیں اس کو وہاں لے کر جائیں اور جو سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا پی او ایس جیسا تو ہم اس کو دوبارہ شروع کریں گے تاکہ کیش ٹرانزیکشن کو ختم کیا جائے اور اسے دستاویزی کیا جائے۔

 بجٹ میں نوجوانوں کو نظر انداز کرنے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں سے متعلق پوچھے جانے پر وزیر خزانہ نے بتایا کہ پہلے ہم نوجوانوں کی بات کر لیتے ہیں، اس میں جو سب سے بڑا اپ سائید ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس پوری دنیا میں تیسرے بڑے فری لانسرز موجود ہیں، ہمیں نوکریاں نہیں دینی بلکہ بچے اور بچیاں گھر بیٹھ کے پیسے کمارہے ہیں اور اس میں آئی ٹی سیکٹر کے لیے ہم نے سب سے بڑی رقم مختص کی ہے اور اس کی وجہ ہے کہ یہ جو ان کا ایکو سستم ہے اس مین فندز بنیں گے اور ایدیشنل انفراسٹرکچر ہے اس کو بہتر کیا جائے گا، 3.5 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہے آئی ٹی  کی ۔

 وفاقی وزیر خزانہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ  اس میں کچھ چیزیں وزارت خزانہ نے مختص کردی ہیں کیونکہ ان کو سبسدائزڈ لون چاہیے تو سبسڈی کی رقم اس بجٹ میں مختص کی گئی ہے، کیونکہ جہاں ریٹ ہے اور جن ریٹ پر ہم نے ان کو دینا ہے اس کی سبسڈی حکومت دے گی اور چونکہ یہ بینک تھوڑا گھبراتے ہیں تو فرسٹ لاس کی گارنٹی ہے وہ بھی ہم نے کہہ دیا ہے اسٹیٹ بینک کو کہ ہم اس کو آگے لے کر چلیں گے۔

 محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ ایگزم بینک میں ایکسپورٹ ری فنانس اسکیم شفٹ ہورہی ہے اسٹیٹ بینک سے تو اس میںا ب ٹھیک ٹھاک رقم ہے جو ری فنانس کی وہ ہم نے لازمی کردی ہے کہ وہ ایس ایم ای کو جائے۔ ترقاتی بجٹ اور گریب عوام کو ریلیف سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ڈی پی میں ہماری ترجیح تھی کہ جو منصوبے چل رہے ہیں ان کو مکمل کیا جائے، 81 فیسد رقم ان کو دی جارہی ہے جو مکمل ہونے والے ہیں، اگر یہ پروجیکٹس رکے رہیں گے تو جو اثر آنا تھا وہ نہیں آ پائے گا، اسی طرح نئے منصوبوں کو صرف 19 فیصد مختص کیا گیا ہے، کچھ تکینیکی چیزوں کو ہمیں آگے لے کر چلنا ہے۔

 ایک سوال پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ جس جس سے حکومت نکل جائے، وہ کسان اور زراعت کے لیے اتنا ہی بہتر ہے، چاول کا معاملہ دیکھیں، اس میں کیوں کچھ نہیں ہوگا، مارکیٹ بیس ڈیمانڈ سپلائی چل رہی ہے، بمپر فصل ہوگئی، برآمدات ہوگئی، نہ اس کی خبر آئی، نہ کسان نے کوئی شکایت کی۔

وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم حلقوں کی سیاست کرتے ہیں، ہمیں آپ کی تکلیف کا اندازہ ہے مگر کیا آپ نے دیکھا کہ ایک سال پہلے پاکستان کہاں کھڑا تھا اور اب بہتری آئی ہے، شاید شہباز شریف اور ریلیف دینا چاہتے تھے وہ نہ دے سکے لیکن کچھ معاشی حقیقتیں بھی ہیں، جب خسارہ بڑھتا ہے تو اس کو بھرنے کا طریقہ ایک یہ ہے کہ نوت چھاپیں یا دوسرا یہ ہے کہ آپ قرض لے کر اگلی نسلوں پر بوجھ ڈالیں، ہم نے یہ دونوں ہی کر کے دیکھ لیا ہے، یہ راستہ مشکل ضرور ہے لیکن اگر ہم یہ نا کرتے تو کیا صورتحال ہوجاتی اس پر بھی سوچیں۔

 انہوں نے بتایا کہ وہ شعبے کو ٹیکس نہیں دیتے تھے تو کس وزیر خزانہ نے یہ ہمت کی ان سے براہ راست نمٹے اور ان کو کہے کہ ہم آپ کو ہر قسم کی آسانیاں دیں گے لیکن آپ آمدنی پر ٹیکس دیں۔ریئل اسٹیٹ میں 9 ٹریلین روپے ہیں، انہیں کہاں ہے کہ دستاویزی معشیت میں آئیں، نان فائلرز بنیں گے تو آپ کےلیے ریٹ بھی زیادہ ہوگا اور بعد میں اس حوالے سے آپ سے ایف بی آر پوچھے گا بھی، یہ ایک مرحلہ ہے جس سے آپ کو گزرنا پڑے گا۔

 وزیر مملکت نے کہا کہ بجٹ میں کمزور طبقات کے لیے بھی رقوم مختص کی گئی ہیں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے ریکارڈ رقم مختص کی گئی، بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے رقم رکھی گئی ہے، اسی طرح سے کم از کم اجرت 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار کردی گئی ہے، جب ایک چپڑاسی کی تنخواہ 37 ہزر ہو جائے گی تو اوپر جو اکاؤنٹنٹ ہے، اس کی تنخواہ بھی 37 ہزار نہیں رہ سکتی، پورا اسکیل ایڈجسٹمنٹ ہوگا۔

 علی پرویز ملک نے کہا کہ ڈیجیٹائزیشن اور انفورسمنٹ سے متعلق اقدامات پر عمل در آمد کو کچھ وقت دیں، پھر جب ہمارے پاس دکھانے کے لیے کچھ ہوگا تو ہم اگلے لوگوں سے آسانیاں لے سکتے ہیں۔

مزیدخبریں