سٹی42: ایران کی حکومت نے ایرانی جرمن خاتون ایکٹیوسٹ کو آخر کارجیل سے رہا کر دیا۔ اس خاتون کی رہائی کے لئے دنیا میں چار سال سے مسلسل تحریک چلائی جا رہی تھی۔
ایرانی عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے کے دوران ایران میں گرفتار ہو جانے والی ستر سالہ ایرانی جرمن شہری ناہید تغاوی ایران کی جیل مین چار سال قید رہنے کے بعد رہا ہو کر جرمنی واپس آگئی ہیں۔ ان کی رہائی سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں اور خاص طور سے ایرانی خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
چار سال سے زائد عرصے سے ایران میں قید ایک جرمن ایرانی خاتون ناہید تغاوی آج جرمنی واپس آگئی ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے پیر کو ان کی گھر واپسی کی اطلاع کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔
جب کہ اکتوبر 2022 سے اسلامی جمہوریہ کے زیر حراست ایک فرانسیسی شہری نے ایک آڈیو پیغام میں اپنی شناخت ظاہر کی اور کہا کہ وہ اپنی آزمائش سے تھک چکی ہے۔
مغربی ممالک برسوں سے ایران پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو ریاستی یرغمال بنانے کی پالیسی کے تحت اپنے شہریوں کو مراعات حاصل کرنے کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
ایرانی اور جرمن دوہری شہریت کی ھامل خاتون ایکٹیوسٹ ناہید تغاوی کی ڈرامائی رہائی سے زرا پہلے ایران کی حکومت نے اتوار کے روز اعلان کیا تھا کہ امریکی حوالگی کے وارنٹ پر اٹلی میں قید ایک ایرانی شہری وطن واپس آگیا ہے۔
ناہید تغاوی مغربی پاسپورٹ ہولڈر ایرانی شہریوں کے اس گروپ میں سے ایک تھیں جو ایران میں مختلف الزامات میں قید ہیں۔ ان کے متعلق انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ انہیں ایران کی حکومت نے مغربی حکومتوں کے ساتھ بارگیننگ کرنے کی غرض سے گرفتار کر کے قید رکھا ہوا ہے۔ انہیں عام طور پر "ریاست کے یرغمالی" کہا جاتا ہے۔
ناہید تغاوی کی رہائی کی خبر پر قطر کے نیوز آؤٹ لیٹ الجزیرہ نیوز نے یہ ہیڈ لائن لگائی کہ "ایران نے دوہری جرمن شہری کو رہا کر دیا ہے کیونکہ ایران کے سفارت کاروں نے یورپی ہم منصبوں کے ساتھ پابندیوں اور بڑھتے ہوئے تناؤ کو سنبھالنے کے طریقوں پر مزید مشاورت کی ہے"
اس واقعہ سے کچھ دن پہلے، روم کی جانب سے شدید سفارتی کوششوں کے بعد، ایک اطالوی خاتون صحافی سیسیلیا سالا کو تہران کی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
سیسیلیا سالا خوش قسمت تھیں کہ ان کی گرفتاری سے پہلے ہی انہوں نے گرفتاری کئے جانے کی اطلاع گھر والوں کو فون کر کے دے دی تھی اور ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی دنیا بھر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شور مچا دیا تھا۔ سالا کو دو ہی ہفتے تہران کی جیل میں قید رہنا پڑا تھا۔
جرمن-ایرانی خاتون 70 سالہ ناہید طغاوی ایران میں چار سال تک حراست میں رہنے کے بعد اتوار کو جرمنی واپس آئی، ان کے اہل خانہ نے بتایا۔ناہید تغاوی، ایک طویل عرصے سے خواتین کے حقوق اور آزادی اظہار کے لیے مہم چلانے والی کارکن ہیں، ناہید کو اکتوبر 2020 میں تہران میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اگست 2021 میں، انہیں ایران میں غیر قانونی قرار دی گئی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، ایرانی ریاست کو غیر مستحکم کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے پر 10 سال اور آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ناہید طغاوی کو برطانیہ-ایرانی کارکنوں کے حقوق کے کارکن مہران رؤف کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، اور ان دونوں کو ان الزامات سے متعلق الزامات کے تحت سزا سنائی گئی تھی کہ انہوں نے "قومی سلامتی میں خلل ڈالنے کے مقصد سے دو سے زائد افراد پر مشتمل ایک گروپ بنایا تھا"۔ تفتیش کاروں نے رؤف کو تشدد اور دیگر ناروا سلوک کا نشانہ بنایا، جس میں تعاون نہ کرنے کی صورت میں اسے نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دینا اور 24 گھنٹے لائٹ والے کمرے میں بند کر کے اسے ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ رؤف اب بھی ایران میں صوابدیدی حراست میں ہیں۔
ناہید تغاوی کی رہائی پر ان کی بیٹی مریم کلیرن نے کہا کہ الفاظ ہماری خوشی کو بیان نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ایک ہی وقت میں، ہم ان چار سالوں پر ماتم کرتے ہیں جو ہم سے چوری ہو گئے تھے اور انہیں ایون جیل میں جس ہولناکی کو برداشت کرنا پڑا تھا" ۔
ناہید اِز فری!
مریم کلیرن نے والدہ کی رہائی کی دنیا کو اطلاع ایکس پر ایک پوسٹ سے دی۔ مریم نے لکھا، "اسلامی جمہوریہ ایران میں 4 سال سے زیادہ سیاسی قیدی رہنے کے بعد میری والدہ #NahidTaghavi کو رہا کیا گیا اور وہ جرمنی واپس آگئی ہیں۔ ہر ایک کا شکریہ جنہوں نے #freenahid (ناہید کی رہائی کے لئے ایکس پر ہیش ٹیگ "فری ناہید" کئی سال سے بنا ہوا تھا) کے لیے مہم چلائی۔ میں میڈیا سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ہماری پرائیویسی کا احترام کریں۔"
ناہید کی امید افزا رہائی ایران میں پیدا ہونے والے جرمن شہری جمشید شرمہد کی ایران میں موت کے مایوس کن واقعہ کے مہینوں بعد ہوئی ہے ، اس موت سے تہران اور برلن کے درمیان سفارتی تنازعہ پیدا ہو گیا تھا۔ جرمنی نے اپنے تہران سے سفیر کو واپس بلا لیا تھا اور ملک میں تین قونصل خانے بند کر دیے تھے۔
اہل خانہ اور" صوابدیدی حراست پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ" کے مطابق جولائی 2020 میں متحدہ عرب امارات میں ایرانی ایجنٹوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شرمہد کو 28 اکتوبر کو "زمین پر فساد پھیلانے" کے متنازعہ قانون کے تحت مجرم قرار دے کر پھانسی دے دی گئی تھی۔ ایرانی عدلیہ "شہری آزادیوں کے لئے آواز اٹھانے" کو کسی اخلاقی جواز کے بغیر "فساد فی الالرض" تصور کرتی ہے اور اس تصور کی متنازعہ شرعی تشریح کے تحت "فساد فی الارض" کر مرتکب قرار پائے افراد کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے۔
لیکن شر مہد کے کیس میں ایران عدلیہ نے بعد میں کہا کہ جب ان کی پھانسی قریب تھی تو وہ اس پر عملدرآمد سے پہلے ہی جیل میں مر چکے تھے۔