بلا کا مسئلہ؛ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کیخلاف الیکشن کمیشن کی پیٹیشن، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا

13 Jan, 2024 | 07:31 PM

امانت گشکوری: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ کی جانب سے الیکشن کمیشن کےپی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کر کے اسے انتخابی نشان نہ دینے کے فیصلہ کو کالعدم کرنے کے فیصلہ کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پیٹیشن کی سماعت مکمل کر لی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو تھوڑی دیر بعد سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، دونوں جانب سے اچھے دلائل دیے گئے، دلائل کو جذب کرنے اور نتیجے تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔ محفوظ فیصلہ کچھ دیر تک سنایا جائے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی مین تین رکنی بنچ نے کل الیکشن کمیشن کی پیٹیشن کی سماعت شروع کی تھی، کل اور آج دن بھر طرفین کے دلائل سننے کے بعد آج شام سماعت مکمل کر دی گئی۔ 

قبل ازیں آج سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں نے پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کے خلاف  شکایتوں کےا نبار لگا دیئے ۔  کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا جو پی ٹی آئی ممبران انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض کر رہے ہیں وہ نام لکھوا دیں اور پھر حکم دیا  کہ جن لوگوں کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں لڑنے دیا سامنے آئیں۔

سب سے پہلے  پی ٹی آئی رہنما یوسف علی سامنے آئے اور کہا کہ میں بچپن سے پی ٹی آئی کا رکن ہوں 2013 میں بھی انتخابات لڑے تھے،محمود احمد خان نے کہا میں 2006 سے پی ٹی آئی کا ممبر ہوں،عمران خان کے متعدد سیمینار کرائے،میں ہمیشہ پی ٹی آئی میں رہوں گا مجھے انٹرا پارٹی الیکشن کا بتایا ہی نہ گیا۔ 

  پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں نے چیف جسٹس کے سامنے شکایات پیش کیں کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت نے انہین انٹرا پارٹی الیکشن میں شامل ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔

خاتون رہنما نورین فاروق  چیف جسٹس سے کہا کہ ہم شروع سے پی ٹی آئی کے کیساتھ ہیں مگر اب نظرانداز کر دیا گیا،عمران اسماعیل کیساتھ ہوتی تھی پنجاب میں بھی رہی ہوں،جی ایٹ اسلام آباد میں تین منزلہ پی ٹی آئی کا دفتر ہے،اسلام آباد کے دفتر گئے مگر انٹرا پارٹی انتخابات کا بتایا تک نہیں گیا،مجھے عمران خان کہتے تھے کہ  یہ پی ٹی آئی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ 

 نورین فاروق  نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ 1999 میں پی ٹی آئی کا حصہ بنی اور خواتین ونگ کی مقامی صدر تھی، نعیم الحق کی سیکرٹری کے طور پر بھی فرائض انجام دیتی رہی ہوں، کسی اور جماعت کا حصہ نہیں بنی، الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن انٹرا پارٹی الیکشن میں شریک ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔  عمران خان مجھے پارٹی کا اثاثہ اور انسائیکلوپیڈیا کہتے تھے، مجھے انٹرا پارٹی الیکشن لڑنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ 

  چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ خان صاحب آپ لوگوں سے ناراض ہیں کیا؟پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیخلاف درخواست گزار نے کہا چیف جسٹس سے کہا کہ سچ بولنے پر ہمیں نظرانداز کیا گیا،بانی رکن پی ٹی آئی بلال اظہر رانا عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ  بانی ارکان میں آپ کا نام نہیں ہے،بلال اظہر رانا نے جواب دیا کہ 25اپریل 1996 سے تحریک انصاف کا حصہ ہوں،

اکبر ایس بابر نام کے نہیں واقعی بانی ہیں

  اکبر ایس بابر ن کی جانب سے ان کے وکیل نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ اکبر ایس بابر نام کا بانی رکن نہیں واقعی پارٹی کے بانی ہیں،  تمام دستاویزات لایا ہوں،بلے کا انتخابی نشان لینےکیلئے میرے موکل نے ہی الیکشن کمیشن کو لکھا تھا۔

پی ٹی آئی کے رکن محمد مزمل بھی عدالت میں پیش  ہوئے اور بتایا کہ 2016 سے پی ٹی آئی کے رکن اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے وائس پریذیڈنٹ تھے، انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ گئے تو  کہا گیا  کہ "خان صاحب" نے جن کو کہہ دیا وہی لوگ انٹرا پارٹی الیکشن لڑیں گے۔ 

  اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن  نے بتایا کہ پی ٹی آئی کا 1999 کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے،پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان موجود ہیں،بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر ایس بابر بھی شامل ہی۔ ہم نے پی ٹی آئی کے عبوری آئین کی بھی نقل فراہم کی ہے، 

پی ٹی آئی کو انتخابی نشان چراغ کی جگہ بلا اکبر ایس بابر نے دلوایا

وکیل اکبر ایس بابر کے وکیل نے بتایا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کو انتخابی نشان بلے کیلئے درخواست اکبر ایس بابر کے ذریعے دی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2002 سے پہلے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان کیا تھا۔

اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے بتایا کہ بلے سے پہلے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چراغ ہوتا تھا۔
 چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اپنے ممبران بارے حقائق تو بتانے چاہیں۔ ممبران کی رائے نہ لیں مگر پی ٹی آئی انکو تسلیم تو کرے۔

چیف جسٹس نے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف مدعی اکبر ایس بابر سے استفسار  کیا کہ اب پی ٹی آئی انتخابی نشان دینے کا کہہ رہی ہے آپ کیا کہیں گے۔

اکبر ایس بابر کے وکیل نے جواب میں اپنا موقف بتاتے ہوئے کہا کہ جب انٹرا پارٹی انتخابات ہی نہیں ہوئے تو پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہیں مل سکتا۔


مخدوم علی خان نے جواب الجواب کا آغاز کر دیا

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ پی ٹی آئی کہتی ہے الیکشن کمیشن دوہرا معیار اپنا رہا ہے، 

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے کل ہی 13 سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اے این پی کو شاید لاء اینڈ آرڈر کی وجہ سے دس مئی تک وقت دیا ہے۔

مخدوم علی خان نے وضاحت کی کہ اے این پی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو پانچ سال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے۔اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔

آئینی ادارہ کے اختیارات

 چیف جسٹس  آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو یہ الیکشن کمیشن کے اختیارات ختم کرنے والی بات ہو گی۔کسی آئینی ادارے کو کیس دائر کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔  ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں درخواست دائر نہیں کر سکتی، الیکشن کمیشن کے خلاف کیسز ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کر سکتا؟ اگر ہائیکورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہو گی۔

ہوا میں بات مت کریں، کسی جماعت سے شکایت ہے تو اسے فریق بنائیں

 پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نےالزام لگایا کہ الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف سے رویہ دوسری جماعتوں سے الگ ہے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے، باقی تمام جماعتوں کو الیکشن کمیشن کچھ نہیں کہہ رہا۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے تو 13 سے زائد جماعتوں کو ختم کر دیا ہے، ایسی بات ہوا میں نہ کریں کسی جماعت سے شکایت ہے تو اسے فریق بنائیں۔

 وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے مزید الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن استحصال کر رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی کیا تب بھی پی ٹی آئی کا استحصال ہورہا تھا؟ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔

اس سے پہلے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے  پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے کہا کہ آپ کے دلائل "ڈرامائی" ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائیں آپ کرا دیتے،جو لوگ انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کر رہےہیں ان کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ وہ ممبر ہی نہیں ہیں۔ اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکالنے کا کوئی ثبوت دے دیں۔

وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ کسی اور کیس میں دستاویزات جمع کرائی تھیں، اکبر ایس بابر کا معاملہ تو سپریم کورٹ کے سامنے چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔

  اکبر ایس بابر کے وکیل نے بتایا کہ عمران خان نے ایک شوکاز نوٹس حامد خان کو بھی جاری کیا، شوکاز نوٹس 2019 کو دیا گیا تھا۔  حامد خان نے ( اکبر ایس بابر کی طرف سے) ایک جواب جمع کرایا تھا۔ الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کے رکن کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ 

 چیف جسٹس پاکستان  نے مزید کہا کہ فوزیہ قصوری  اور کئی دیگر لوگ پی ٹی آئی کے کارکن ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف انتخابی نشان والا معاملہ دیکھے۔

پی ٹی آئی کے ممبر سامنے کھڑے ہیں، ان کو کیسے نطر انداز کریں

چیف جسٹس پاکستان  نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے ممبر سب لوگ ہمارے سامنے کھڑے ہیں ان کو نظرانداز کیسے کریں۔ جو پی ٹی آئی کے اپنے لوگ اعتراض کر رہے انکو کیسے نظرانداز کریں۔

وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ کس کو جماعت کا ممبر رکھنا ہے یا نہیں یہ جماعت کا اندرونی معاملہ ہے۔ 

اس سے پہلے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کہا پشاور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی زیرالتواء ہے؟ 

احمد حسن وکیل نے بتایا کہ بظاہر ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر  نے کہا لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا کیس سے پشاور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا۔

 احمد حسن  وکیل نے کہا کہ عام انتخابات میں کاغذات جمع کراتے وقت ہی پارٹی سے تعلق لکھنا ہوتا ہے۔

مزیدخبریں