دیپکا کا بے شرم رنگ اورخان کی ریڈ لائن

13 Jan, 2023 | 03:18 PM

آج مجھے دو رنگوں پر بات کرنا ہے دیپکا پڈوکون کے "بے شرم رنگ " والے گیت اور عمران خان کی ریڈ لائن والی قوالی کی ، لیکن پہلے بات کر لیتے ہیں پاکستان کی سیاسی فلم کی کہ جس میں آجکل ایک رنگ کا چرچہ ہے یہ رنگ ریڈ (لال) رنگ ہے ، جب سے عمران خان صاحب کی مرکز میں حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئینی انداز سے ہٹائی گئی ہے، ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائے جاتے رہے کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے اب ہم قوم یوتھ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آڈیوز آنے کے بعد آپ کو کیسے علم ہوا کہ آپ کی جو لائن ہے وہ ریڈ ہے اور اس کا نام عمران خان ہے معاملہ یہاں تک رہتا تو ٹھیک تھا لیکن دو روز قبل خود عمران خان صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرے نام پر ریڈ لائن لگا دی گئی ہے اور میں عوامی طاقت سے اس ریڈ لائن کو ختم کرکے دکھاؤں گا ، پریشانی مزید بڑھ گئی کے ایک جانب عمران خان کے چاہنے والے انہیں ریڈ لائن قرار دے رہے ہیں اور دوسری جانب خود چیئرمین تحریک انصاف اس ریڈ لائن کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں گتھی سلجھ نہیں رہی تھی لیکن گئی رات یہ معمہ بھی حل ہوگیا جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ نےدو سطر کی ایک تحریر کے ذریعے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مراسلہ گورنر کو بجھوا دیا ۔

 یہ مراسلہ ہی دراصل ایک ریڈ لائن تھا جو اب تک عمران خان ، طاقتور حلقوں اور پی ڈی ایم کے مابین حائل تھا اس ریڈ لائن کو پہلے کون عبور کرتا ہے یہی صبر کا امتحان تھا جسے عمران خان کی جلد بازی نے عبور کرلیا ، اب میدان کُھلا ہے سب کے لیے کہ پنجاب کے ضمنی یا جنرل انتخابات ہوں گے ،پی ٹی آئی پنجاب حکومت کے خاتمے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور شائد اسی لیے #ایک بہادر عمران خان بنایا گیا ہے لیکن سیاست کی زبان میں اسے خودکشی ہی کہا جائے گا کہ اب پنجاب میں سیاسی نقشہ گیری کرنا بہت ہی آسان ہوجائے گا مقتدر حلقوں کو الیکشن سے قبل اپنی صف بندی کا موقعہ ملے گا عمران خان صاحب کشتیاں جلا چکے اب واپسی کا راستہ ممکن نہیں رہے گا وہ ایم پی اے پنجاب اسمبلی جنہیں جہازوں میں بھر کر لایا گیا اور دو رنگا پٹکا پہنا کر پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا اُن کا کام ختم ہوا وہ اب آزاد ہیں جہاز والا پہلے ہی الگ ہوگیا اسکا جہاز خالی ہے اور اب اس جہاز میں پیپلز پارٹی یا ن لیگ کی ٹریول ایجنسی کے جاری کردہ ٹکٹ ہولڈر ہی سواری کا لطف حاصل کر سکیں گے ، پنجاب میں عبوری حکومت کا قیام مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کی رضامندی ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ عمران خان اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور یوں اُن کے لگائے ہوئے اور اُن کے ہاتھوں ستائے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو عبوری حکومت کی نامزدگی کرنا ہوگی یہ نامزدگی یقنناً مقتدر حلقوں کی مرضی سے ہوگی ۔

 وفاق میں مسلم لیگ ن پی ڈی ایم کے نام سے حکومت کر رہی ہوگی اور انہی ایم این ایز کے نیچے دو دو ایم پی ایز کا انتخاب ہونا ہے اس لیے وفاق کسی سے وعدہ کرنے اور نبھانے کی پوزیشن میں ہوگا ، دھاندلی اور 35 پنکچرز والی سٹوری دہرائی بھی گئی تو بے اثر ہوگی کہ پہلے پنکچرز پر کپتان اسے سیاسی بیان کہہ کر یو ٹرن لے چکے ہیں ، سیاسی میدان کُھلا ہوگا تو مسلم لیگ ن کی جانب سے نواز شریف جو ممکنہ طور پر واپس آجائیں گے اور آصف علی زرداری الیکٹیبل کے لیے بہترین چوائس بن جائیں گے پنجاب ،کم شہری اور ذیادہ دیہاتی حلقوں پر مشتمل ہے جہاں ٹوئیٹر ٹرینڈز پر نہیں ذات برا دری ، وڈیرہ شاہی اور چودھری کلچر کی بنیاد پر الیکشن لڑا جاتا ہے یہاں کے وڈیرے اور چودھری پہلے ہی خان صاحب کے ریڈ لائن والے پراپگنڈے سے حائف ہیں اور اگر اب کے محکمہ ذراعت نے انہیں پارٹی چھوڑنے کا کہا تو زرعی رقبوں کے یہ مالک محکمہ زراعت کو انکار نہیں کر سکیں گے کہ یہی زراعت اآن کی روزی روٹی کا زریعہ ہے  ۔

یہ تو بات ہوگئی سیاست کی اب فلم کی بات کرلیتے ہیں کیا کریں کچھ بکتا ہی نہیں جب تک اس میں گلیمر ، کچھ ننگ دھڑنگ اور تنازعہ شامل ہی نہ کیا جائے ۔ دوستو بھارتی فلم اور پاکستان کی سیاست آج کل اسی کلیئے کی بدولت سُپر ہٹ جارہی ہے ، ہم جیسے پریشان ہیں کہ بات کہاں سے شروع کریں کہ سب کچھ تیزی سے بدل رہا ہے لیکن فلم کی کامیابی کا کلیہ اپنی جگہ قائم ہے چلیں پہلے فلم پٹھان کی بات کر لیتے ہیں کہ جس کا تنازعہ آج کل بھارت میں ہٹ بک رہا ہے یش راج فلم کے بینر تلے بننے والی اس فلم میں ایک پٹھان( شاہ رخ خان) کو دکھایا گیا ہے جسے جہادی تربیت کچھ اس انداز میں دی جاتی ہے کہ فلمی مولوی بچے کو حوروں اور شراب کا چکر دے کر دہشت گرد بناتا ہے لیکن فلم کے اختتام پر پٹھان کو پتہ چلتا ہے کہ جن کے لیے وہ جان دینے جا رہا ہے وہی اس کے والدین کے قاتل ہیں اور انہی سے تو وہ بدلہ لینا چاہتا تھا ، کہانی پر تو بھارتیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے صرف ایک گانے پر اعتراض ہے جس کے بول ہیں بے شرم رنگ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارت میں بسنے والے انتہا پسندوں کو دیپکا پڈوکون کے بے شرم ہونے اور اپنے جسم کی نمائش پر تو قطعاً اعتراض نہیں ہے سارا ہنگامہ جسم پر ادھ لپٹے ذیادہ کُھلے گیروی یا بسنتی  رنگ پر ہے جو ہندو برادری کے نزدیک اُن کا مذہبی رنگ ہے جو حسینہ دیپکا پڈوکون کے ذریعے ایک پٹھان (شاہ رخ خان ) کے جسم سے لپٹ رہا اور وہ اس سے کھیل رہا ہے ، یش راج فلمز والے خوش ہیں کہ اُن کی فلم اس تنازعہ سے ذیادہ بزنس کرئے گی جس نے نہیں بھی دیکھنی تھی وہ اب ضرور دیکھے گا ۔

مزیدخبریں