ویب ڈیسک : لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواستیں واپس لینے کی بناء پر مسترد کردیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل بینچ نےشہباز شریف اور حمزہ شہباز کی درخواستوں پر سماعت کی ، درخواستگزاروں کی جانب سے امجد پرویز ایڈووکیٹ پیش ہوئے ۔ مؤقف اختیار کیا کہ چیئرمین نیب کی منظوری کے بعد 2008 سے 2018 تک منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا ہے، ایف آئی اے کے مقدمہ میں بھی 2008 سے 2018ء تک بے نامی اکاؤنٹس کا الزام لگایا گیا ہے، مقدمہ 14 نومبر 2020ء کو درج کیا گیا،چیف جسٹس نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا مقدمہ دو سال بعد درج ہوا اور مقدمہ درج ہونے کے 2 سال بعد آپ نے یہ درخواست دائر کی، متعلقہ عدالت اس معاملے پر اپنا دائرہ اختیار استعمال کر چکی ہے، عدالت میں چالان بھی جمع ہو چکا ہے تو عدالت کو اس پر فیصلہ کرنے دیں۔ تحقیقات مکمل ہو چکی، چالان جمع ہو چکا ہے، یہاں سوال ہے کہ چالان جمع ہونے کے بعد ہائیکورٹ کیسے عدالتی کارروائی کو کالعدم کر سکتی ہے؟
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے جواب دیا عدالتی فیصلوں کی روشنی میں چالان جمع ہونے کے باوجود مقدمہ کے اخراج کی درخواست دائر کرنے پر پابندی عائد نہیں کی گئی، کیس کے میرٹ کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو بھی شہباز شریف ریلیف کے حقدار ہیں، ایک ہی الزام پر دو ادارے تحقیقات کر رہے ہیں ان حالات میں کون فیصلہ کرے گا کہ معاملہ کس ادارے کے پاس جائے گا، ٹرائل کورٹ کو اختیار نہیں کہ وہ دائرہ اختیار کا تعین کرے، نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب ہی کسی دوسرے ادارے کو تحقیقات کیلئے طلب کر سکتا۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہم کیسے کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں جب ایک کیس ہمارے سامنے ہو اور دوسرا ہمارے سامنے نہ ہو، آپ ایک کیس کو چیلنج کر رہے ہیں اور دوسرے کیس کو چیلنج نہیں کر رہے، امجد پرویز ایڈوکیٹ بولے نیب آرڈیننس کو بالاتر اختیار حاصل ہے، چیف جسٹس نے کہا آپ کوئی موازنہ پیش کریں، آپ کی درخواست میں نیب اور ایف آئی اے کیسز کا موازنہ بھی پیش نہیں کیا گیا ۔یا پھر آپ نئی آئینی درخواست کے ذریعے ہائیکورٹ آئیں، اس درخواست کے مطابق تو آپ کا کیس نہیں بنتا۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا ایک الزام پر دو اداروں کی تحقیقات کیخلاف مناسب فورم سے رجوع کرنے کیلئے درخواست واپس لینا چاہتا ہوں۔