ویب ڈیسک: روس یوکرین کشیدگی پر امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔
صدر بائیڈن نے روسی صدر سے گفتگو میں کہا کہ روس نے یوکرین میں دراندازی کی تو اسے فیصلہ کُن ردعمل کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا سفارت کاری اور دیگر منظرناموں کے لیے تیار ہے، روسی جارحیت سے بڑے پیمانے پر مشکلات ہوں گی، روس کا مؤقف کمزور پڑجائے گا۔ امریکی عہدیدار نے میڈیا کو ٹیلیفونک رابطے کے حوالے سے بتایا کہ بائیڈن اور پیوٹن کی فون کال پیشہ ورانہ کال تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن اور پیوٹن کی کال سے کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی، روس سفارت کاری کے راستے پر جائے گا یا نہیں، ابھی واضح نہیں۔ امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ روس فوجی ایکشن کی طرف بھی جا سکتا ہے، وہ دنیا سےالگ تھلگ اور چین پر زیادہ انحصار کرتا جارہا ہے۔
دوسری جانب امریکی آبدوز نے روسی سمندری حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس حوالے سے روسی فوج کا کہنا ہے کہ امریکی آبدوز نے روسی حدود سے نکل جانے کی درخواست نظرانداز کی، جس کے بعد روسی فوج نے متعلقہ اقدامات کیے تو امریکی آبدوز روسی حدود سے باہر چلی گئی۔ امریکی آبدوز کی جانب سے روسی سمندری حدود کی خلاف ورزی پر احتجاج کے لیے روسی وزارت دفاع نے امریکی فوجی اتاشی کو طلب کر لیا۔
روس اور یوکرین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی پر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو سے رابطہ کیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر دفاع نے روسی ہم منصب سے یوکرین اور کریمیا کے نزدیک روسی افواج کے اضافے پر تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر دونوں وزرا دفاع کے درمیان سیکیورٹی مسائل پر بھی بات ہوئی۔
نیٹو کیا ہے؟
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی تشکیل سنہ 1949 میں سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر کی گئی تھی۔ امریکا اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنائے گئے اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کے سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔ جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد، سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور سنہ 1948 کے وسط میں سوویت رہنما جوزف سٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی، جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔ شہر میں محاذ آرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ 1949 میں امریکہ اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، ناروے، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈز، پرتگال، آئس لینڈ اور لکسمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔
1952 میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ سنہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔
یوکرین سابقہ سوویت کا ایک حصہ ہے جس کی سرحد روس اور یورپی یونین دونوں سے ملتی ہے۔ یہ نیٹو کا رکن ملک نہیں لیکن اس کا ’شراکت دار ملک‘ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین کو مستقبل میں کسی بھی وقت اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔روس مغربی طاقتوں سے اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا لیکن مغرب اس کے لیے تیار نہیں۔ یوکرین میں رہنے والے روسی باشندوں کی ایک بڑی آبادی ہے اور روس سے قریبی سماجی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ کریملن یوکرین کو اپنے قریبی علاقے کے طور پر دیکھتا ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا دعویٰ ہے کہ مغربی طاقتیں اس اتحاد کو روس کو گھیرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بند کر دے۔ وہ ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور ڈالتے آئے ہیں کہ امریکہ نے 1990 میں دی گئی اپنی اس ضمانت کو ختم کر دیا، جس کے مطابق نیٹو اتحاد مشرق میں نہیں پھیلے گا۔نیٹو روس کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے رکن ممالک کی ایک بہت چھوٹی تعداد کی روس کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہیں اور یہ ایک دفاعی اتحاد ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوجیوں کی موجودہ تشکیل مغرب کو روس کے سکیورٹی مطالبات کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
2014 کے ابتدا میں جب یوکرین نے اپنے روس نواز صدر کو معزول کر دیا تو روس نے یوکرین کے جنوبی جزیرہ نما کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس نے روس نواز علیحدگی پسندوں کی بھی حمایت کی جنھوں نے مشرقی یوکرین کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔نیٹو نے اس میں مداخلت نہیں کی لیکن اس نے پہلی بار مشرقی یورپی ممالک میں فوجیں بلا کر روس کے اس اقدام کا جواب دیا۔ ایسٹونیا، لٹویا، لتھونیا اور پولینڈ میں اس اتحاد کے چار ملٹی نیشنل جنگی گروپ جبکہ رومانیہ میں ایک ملٹی نیشنل بریگیڈ موجود ہے۔