جی ہاں اگر آپ سوشل میڈیا جھوٹ پھیلائیں گے تو کہیں نہیں سیدھے جیل جائیں گے ، لیکن سچ جھوٹ کا فیصلہ کون کرے گا بسا اوقات ایک فریق کا سچ فریق ثانی کے لیے جھوٹ ہوسکتا ہے ہماری عدالتوں میں کیا ہوتا ہے وکیل ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایسے ایسے جھوٹ تراشتے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا (چند ایک کو نکال کہ ) میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ کیا وکیلوں سے بہتر بھی کوجھوٹ تراش سکتا ہے تو میرا دماغ ہمیشہ جواب دیتا نہیں کوئی نہیں جو ان کی ہمسری کرسکے یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ ان کے آنے کے بعد وکیل کہیں پیچھے رہ گئے اور اب سوشل میڈیائی جھوٹے دیو اس جھوٹ کی وادی کے سب سے بڑے دیو ہیں اور وکلاء کے بھی "پیو" یعنی باپ ہیں ، لیکن میں یہاں وکلاء کی وکالت کرنے کے لیے نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر کام کرنے والے ورکرز جو خود کو صحافی بھی سمجھتے ہیں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت ایک ایسا قانون لارہی ہے جس کی مدافعت میں کوئی صحافی تنظیم یا کلب بھی باہر نہیں نکلے گا اور آپ سزا کے حقدار بن جائیں گے ۔
صحافی کی بھی کیا زندگی ہے بسا اوقات بیچارہ جسے خبر سمجھ رہا ہوتا ہے وہ کسی کا ایجنڈا بھی ہوسکتا ہے یہ سب کبھی کتابوں میں لکھا پڑھا جاتا تھا خاص کر دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے جنرل گوئبل کو جھوٹ پھیلانے اور اسے سچ بنانے کا استعارہ بنایا گیا ،ہم نے اس کا عملی مظاہرہ 2011 کے بعد عملی صحافت میں اسوقت دیکھا جب نیا نیا سوشل میڈیا ابھر رہا تھا ابھی روائتی میڈیا ہی پروان چڑھا تھا لیکن اس کے بعد جنرل( ر) پاشا اینڈ کمپنی نے آہستہ آہستہ صحافیوں میں وہ خبریں انجیکٹ کرنا شروع کیں جن کا ماخد جھوٹ پر مبنی ہو ، 2018 سے قبل یہ کام جنرل فیض حمید اینڈ کمپنی نے اپنے ہاتھ میں لیا سوشل میڈیا عوام میں اپنی جگہ بنا چکا تھا جس کی بنا پر ایسے افراد کو تلاش کیا گیا جو اگریسیو اور خبر کو بلا تصدیق پھیلانے کے ہنر سے واقف ہوں اس مقصد کے لیے جن نوجوانوں کا انتخاب کیا گیا اُن میں عمران ریاض بھی شامل تھے ان سمیت تمام نوجوانوں کو ایسی جعلی فائلز ایسے مقامات دوسرے الفاظ میں جعلی جھوٹ کی جنت ( ویسی ہی جیسی تاریخی شخصیت حسن بن صباح سے منسوب ہے، جو 11ویں صدی میں نے بنائی تھی ۔ حسن بن صباح نے اپنے جھوٹے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے اور پیروکاروں کو نیکی و بدی کے تصور سے بے خوف بنانے کے لیے ایک جنت نما باغ بنایا تھا ،یہ باغ بہت خوبصورت تھا اور اس میں شراب، حسن، موسیقی اور دیگر دنیاوی لذتوں کا انتظام تھا۔ حسن بن صباح نے اپنے پیروکاروں کو منشیات (خاص طور پر بھنگ یا افیون) دی، اور انہیں یقین دلایا کہ وہ مرنے کے بعد اسی جنت میں جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پیروکار موت سے بے خوف ہو کر دشمنوں پر قاتلانہ حملے کرنے کے لیے تیار رہتے تھے)
دکھائی گئیں ان کو افیون بھنگ کا تو نہیں البتہ ڈالرز میں کمائی کا راستہ دکھایا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ وہ کامیاب ہوئے تو ایک ایسے پاکستان میں ہوں گے جو پرانا نہیں نیا پاکستان ہوگا جنت نظیر پاکستان ڈالرز میں کمائی اور شہرت کی بلندیاں اور "بڑے گھر " سے تعلقات اور کیا چاہیے لہذا اس ملک میں سوشل میڈیا پر جھوٹ کا وہ ننگا ناچ ناچا گیا کہ سچ کہیں دور دبکا بیٹھا رہ گیا ، لیکن دیر آئد درست آئد کے مصداق اب حکومت کو خیال آہی گیا ہے کہ فیک اور جھوٹی خبروں کے حوالے سے ایسی سزائیں تجویز کر دی گئی ہیں جس کے بعد اگر کسی خبر پر جھوٹ کا شائبہ یا ایسی خبر جس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ اس کے ثبوت نہیں ہے اس پر سزائیں دی جائیں گی ۔
اس حوالے سے جو قانون سازی کی جارہی ہے اس کے مطابق فیک نیوز پر 5 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی، سائبر کرائم ترمیمی بل تیار ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی کریک ڈاون کا بھی آغاز کردیا گیا ہے خبر یہ ہے کہ آج آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی کی سربراہی میں بننے والی جے آئی ٹی نے پی ٹی آئی کے ماہر "ٹرولز " کو طلب کیا ہے جنہوں نے 9 مئی اور 26 نومبر کے حوالے سے فیک نیوز پھیلائیں انہیں طلب کیا گیا ہے جنہیں طلب کیا ان میں مبینہ ملزم صبغت اللہ وِرک، محمد ارشد ، عطاالرحمن، اظہر مشوانی، کومل آفریدی، عروسہ ندیم شاہ اور ایم علی ملک شامل ہیں،
وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر جرائم کی روک تھام کے لئے پیکا ایکٹ 2016 کے سیکشن 30 کے مطابق آئی جی پولیس کے ماتحت ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل دی ان پر الزام ہے کہ ملزمان نے سوشل میڈیا پر بدنیتی پر مبنی مہم کے ذریعے پاکستان میں افراتفری اور انتشار پھیلایا۔
جے آئی ٹی کے پاس ملزمان کے خلاف ملک میں بد امنی اور انتشار پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، میں نے یہ لکھا ہے کہ ایک کا سچ دوسرے کا جھوٹ اور ایک جھوٹ کسی کا ایجنڈا بھی ہوسکتا ہے اگر آپ کے پاس کسی خبر کا کوئی ثبوت نہیں تو نا پڑیں کسی پنگے میں، اب فیض حمید جیسا کوئی حسن بن صباح اور ففتھ جنریشن وار جیسی کوئی جنت موجود نہیں ہے خواہ مخواہ عمران ریاض اور صدیق جان للی بننے کی ضرورت نہیں ۔
صورتحال ہے کیا ؟ اس کا اندازہ آپ کو اس خبر سے ہوگا ، سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات ، ایف آئی اے سائبر کرائم کو ایک لاکھ سے زائد شکایات موصول، رواں سال سائبر کرائم ونگ کو 1 لاکھ 23 ہزار 893 شکایات موصول ہوئی، تمام شکایات میں 68 ہزار 627 شکایات کی تصدیق ہو سکی، تمام درخواستوں پر 16 ہزار 555 شکایات پر انکوائری شروع کی گئی ہے ، تمام انکوائریز میں 1044 کیسز رجسٹرڈ کر کے 1382 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ، رواں سال ایف آئی اے نے تا حال 24 افراد کو سزا دلوا کر کیسز مکمل کیا گیا ہے ، اور اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں 1 لاکھ 52 ہزار 136 شکایات موصول ہوئی تھیں ، سال 2023 میں 2ہزار 7 افراد کو گرفتار کر کے 92 کو سزا دلوائی گئی۔
اب آپ کی مرضی آپ ٹک ٹاک پر ناچ گا کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں تو ٹھیک لیکن اگر آپ جھوٹ پھیلا کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں تو یہ اس ملک میں رہتے ہوئے تو ممکن نظر نہیں آتا ۔