(24نیوز)چیف جسٹس اسلام آباہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا نے ریمارکس دئے ہیں کہ کیوں نہ لاپتہ افراد کے معاملے پر تمام چیف ایگزیکٹوز پر آرٹیکل 6 نہ لگادیں؟آرٹیکل چھ لگا کر تمام متعلقہ چیف ایگزیکٹوز کا ٹرائل شروع کرا دیتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی و بلاگر مدثر نارو کے بازیابی کیس میں اٹارنی جنرل اور ایمان مزاری سمیت دیگر وکلا سے اس نکتے پر معاونت طلب کرلی ہے کہ کیوں نہ لاپتا افراد کی ذمہ داری چیف ایگزیکٹیوز پر عائد کر کے ان کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ دیا جائے۔
پیر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کا کمیشن آئین کے خلاف بنا ہے۔ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے، دہشت گرد کو بھی ماورائے عدالت نہیں مار سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو بازیابی کیس سماعت کی تو اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ایسا نہیں کہ لاپتا افراد کا معاملہ موجودہ حکومت کے دور میں شروع ہوا، یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا ہے۔وزیراعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے۔ اس معاملے کا ایک بیک گراؤنڈ ہے کہ اسی ملک میں خودکش دھماکے ہوتے تھے، بہت سارے کیسز ہیں جن میں سینکڑوں پاکستانیوں نے جہاد کے نام پر بارڈر کراس کیا اور افغانستان گئے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ المیہ یہ ہے کہ ہم نے جغرافیائی حالات اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی دیکھنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا عدالت کا کام نہیں ہے کہ لوگوں کو ڈھونڈے اور نہ ہی ڈھونڈ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ قانون بنا رہے ہیں، قانون کی تو ضرورت ہی نہیں۔ عدالت کہہ سکتی ہے کہ شہری جس دور میں لاپتا ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو کےخلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کریں۔
اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل چھ کے جرم میں جسے سزا ہوئی ہم تو اس سزا پر عملدرآمد نہیں کر پائے۔ چیف جسٹس نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے پر کسی کا احتساب نہیں ہو رہا، ہر کوئی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔ ایک ہال آف شیم بنا کر تمام چیف ایگزیکٹیوز کی تصاویر وہاں لگا دیں۔
انہوں نے مزید کہا صرف چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر کیوں لگائی جائیں؟ کچھ بیماریوں کا علاج عدالتی فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے کہ وہ لاکھوں میں تعداد سڑکوں پر آ جائیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا ’عدالتی فیصلوں سے بھی علاج ہوتا ہے اگر ذمہ داروں کا تعین کر لیا جائے۔ عدالت توقع کر رہی تھی کہ وفاقی کابینہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں۔ یا تو چیف ایگزیکٹو ذمہ داری لیں یا پھر ان کو ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔ جب ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ ریاست کا ردعمل کیا ہوتا ہے، ردعمل واضح اور نظر آنا چاہیے کہ لوگوں کو لاپتا کرنا ریاستی پالیسی نہیں۔ کیس کی مزید سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔