ویب ڈیسک : دنیا بھر کے سائنسی اور تحقیقی ماہرین ابھی تک انسان کی اہم چیزوں میں سے ایک نیند کے بارے میں یہ بات دریافت نہیں کرسکے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمارا جسم سونے پر مجبور ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کی عمومی رائے یہ بھی ہے کہ بالغ افراد کو روزانہ سات سے نو گھنٹے سونا چاہیے لیکن ایک تہائی بالغ افراد کو باقاعدگی سے مناسب نیند نہیں آتی ہے جس کے نقصانات مختلف بیماریوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
اس کے برعکس آپ نے بیشتر اوقات یہ بھی دیکھا اور سُنا ہوگا کہ اکثر لوگ صبح سو کر اٹھنے کے بعد جسم میں سستی ،کاہلی یا تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں، حتیٰ کہ اُن کے لیے بستر سے اٹھ کر بیت الخلاء تک جانے کا فاصلہ طے کرنا بھی طبیعت پر گزراں گرتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ نیند سے اٹھنے کے بعد موڈ میں کچھ تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں، جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، انتہائی کاہلی وغیرہ، اس حالت کو “صبح کی افسردگی” کہا جاتا ہے لیکن کیا یہ معاملہ صرف سستی اور چڑچڑے پن کی حد تک محدود ہے یا پھر کوئی عارضہ ہے اور کیا اس کی وجوہات یا علاج بھی ہیں۔؟
ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نے اب مجموعی نیند کے باوجود صبح اٹھ کر تھکنے یا سست ہونے کی وجوہات تلاش کیں، جن میں سے ایک اہم وجہ تلاش کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔تحقیق کے دوران ماہرین اس بات پر پہنچے کہ رات کو سونے کے بعد نیند کا معیار بہتر نہ ہونے کی وجہ سے صبح بیدار ہونے کے بعد بھی تھکاوٹ ، غنودگی اور سستی محسوس ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق نیند کے کئی چکر ہوتے ہیں، جن کا آغاز ہلکی نیند، گہری نیند اور پھر ہلکی نیند کی طرف آتا ہے، دو چکر مکمل ہونے کے بعد جب تیسرا چکر شروع ہو تو اس کا مکمل ہونا ضروری ہے، ورنہ دن بھر تھکاوٹ، سستی اور کاہلی محسوس ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر نیند اپنے چکر مکمل کرتی ہے، بہت سارے لوگ آخری چکر جو گہری نیند کا وقت ہوتا ہے اُس کے درمیانی وقت میں اٹھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بیدار ہونے کے بعد سستی اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔