لاہور ہائیکورٹ کاپولیس تشدد کے حوالے سے بڑا فیصلہ

13 Aug, 2024 | 12:34 PM

Ansa Awais

ملک اشرف : لاہور ہائیکورٹ نے حراستی تشدد، ریپ اور قتل کے الزامات کی تحقیقات ایف آئی اے کی ذمہ داری قرار دے دیا ، اس حوالے سے19 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نےزبیدہ قریشی کی درخواست پر 19 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کیا ، فیصلے کے متن کے مطابق پاکستان نے2010ء سے اقوام متحدہ کے تشدد، غیر انسانی سلوک اور سزائوں کیخلاف کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں، اقوام متحدہ کے شہریوں پر تشدد کیخلاف کنونشن پر دستخط کرنے کے نتیجے میں 2022ء میں حراستی تشدد کیخلاف قانون بنایا گیا، 2022ء کے قانون کی عملداری غیر جانبدار رکھنے کیلئے ہیومن رائٹس کمیشن کو نگرانی کی ذمہ داری دی گئی ۔

 فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے تحت ایف آئی اے حراستی تشدد کی زبانی اطلاع پر بھی انکوائری کی بجائے براہ راست انویسٹیگیشن کر سکتا ہے، محض پولیس کی حدود اور کنٹرول میں بھی کسی فرد کے قتل، تشدد اور ریپ کا الزام حراستی تشدد کے زمرے میں آتا ہے، حراستی تشدد کے الزام کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی فرد باقاعدہ طور پر پولیس کی حراست میں ہو، حراستی تشدد، قتل اور ریپ کیخلاف 2022ء کے قانون کے تحت تحقیقات کیلئے نئے رولز لازمی بننے چاہئیں، حراستی تشدد کی اگر زبانی شکایت بھی موصول ہو تو معاملے پر انویسٹیگیشن کرنا ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے۔

 فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے متعلقہ پولیس افسر کے حراستی تشدد کے الزامات کی تردید کی آڑ میں تحقیقات سے انکاری نہیں ہو سکتا، یہ ذہن میں رکھا جائے کہ ہر ملزم الزامات کی تردید کرتا مگر تحقیقاتی ادارہ ثبوت اکٹھے کرے اور سچ آشکار کرے، عدالت نے خاتون کو حراستی تشدد کیخلاف درخواست جمع کروانے اور ایف آئی اے کو معاملے پر قانون کے مطابق کارروائی کرنے کاحکم دے دیا ، اس کیس میں خاتون نے اغواء کے مقدمہ میں دوران حراست بیٹے اور دیگر اہلخانہ کو پولیس مقابلے میں قتل کئے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔

سیشن عدالت نے خاتون کی پولیس مقابلے کے خلاف درخواست تاخیر سے دائر کرنے کی بنیاد پر 17 جنوری کو مسترد کر دی تھی ،درخواست گزار نے حراستی تشدد ایکٹ 2022ء کے تحت پولیس افسران کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست دائر کی ،وفاقی حکومت کے وکیل نے خاتون کے بیٹے کےقتل کا مقدمہ درج کئے جانے کی بنیاد پر درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرنے کی استدعا کی ،دوران سماعت وفاقی اور صوبائی حکومت کے وکلاء نے خاتون کے بچوں کی پولیس حراست سے ہی انکار کیا۔

مزیدخبریں