ویب ڈیسک : طالبان نے افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ اس کے بعد اب افغانستان کی حکومت کے ہاتھ میں صرف ملک کا دارالحکومت کابل اور دیگر کچھ علاقے باقی بچے ہیں۔
اس سےقبل طالبان نے افغانستان کے تیسرے بڑے شہر ہرات پر بھی قبضہ کر لیا تھا جو گیارہواں صوبائی دارالحکومت تھا جو طالبان کے قبضے میں گیا ہے۔بڑے شہروں قندھار اور ہرات کی فتح کو بڑی کامیابی سمجھا جارہا ہے۔طالبان نے جنوبی افغان صوبے ہلمند کے درالحکومت لشکرگاہ میں قائم پولیس ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس حملے کو ناکام بنانے کے لیے مبینہ طور پر امریکی طیاروں نے فضائی کارروائی بھی کی۔ لیکن طالبان کی ڈرامائی فتوحات نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
امریکا اور برطانیہ نے کابل سے اپنے سفارتی عملے کو نکالنے کے لیے مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔اس حوالے سے پینٹاگان نے کابل کے امریکی سفارت خانے سے عملے کو نکالنے کے لیے اضافی تین ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا۔ جبکہ برطانیہ نے اپنے سفارتی عملے اور شہریوں کو افغانستان سے بحفاظت نکالنے کے لئے 600 فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے ۔ جرمنی نے اپنے شہریوں کے لئے وارننگ جاری کردی ہے اور اور انہیں فوری افغانستان چھوڑنے کے لئے کہا ہے
پینٹا گان ترجمان کا کہنا تھا کہ کابل ایئرپورٹ پر تعینات کیے جانے والے تین ہزار فوجیوں کو طالبان پر حملے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔این بی سی نیوز کو دیے گئے بیانات میں پینٹاگان حکام نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کا کنٹرول القاعدہ کو دوبارہ قدم جمانے اور تنظیم کو فعال کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
دوسری طرف ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح کابل سے فرار ہوگئے پارٹی ذرائع کے مطابق صالح گزشتہ رات تاجکستان چلے گئے ہیں وہاں سے ویڈیو پیغام میں آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔ اپنے ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی حالت میں اور کسی بھی معاہدے کے تحت طالبان کو قبول نہیں کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ طالبان ناکام ہوں گے۔